عید ’’کانٹرو ورسی‘‘

کہتے ہیں جب انسان کی تشکیل کیلئے مٹی گوندھی جا رہی تھی تو اس میں فساد کے عنصر کے علاوہ چٹکی بھر توہم کا سفوف بھی ڈال دیا گیا تھا۔ آدمی ازل سے ہی توہمات کا اسیر رہا ہے۔ وہم ایک ایسا عارضہ ہے جس کے شاہ و گدا ، راہبر و رہنما سبھی اسیر ہوتے ہیں۔ صرف شدت میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ گو سائنس نے بڑی ترقی کی ہے۔ انسان ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے، لیکن ہنوز انکی حرکت سے اپنی قسمت کا حال معلوم کرتا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جو ستارہ گردش افلاک میں خوار و زبوں ہے، وہ میری قسمت کا حال کیا دیگا؟ باایں ہمہ اکثریت اب بھی اسے شاعرانہ تعلّی سمجھتی ہے۔اس سلسلے میں بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ انڈونیشیا کا صدر سوئیکارنو ایک انقلابی لیڈر تھا۔ ولندیزیوں سے آزادی کی جدوجہد میں کئی دفعہ موت اسے چھوڑ کر گزری، لیکن اسکے قدم نہ ڈگمگائے۔ صدر بننے کے بعد اسے گردے کا عارضہ لاحق ہو گیا۔ مرض نے شدت پکڑی تو ڈاکٹروں نے آپریشن کا مشورہ دیا۔ اس نے صاف انکار کر دیا۔ ٹائم میگزین نے لکھا!
He fears the scalpel, because his Horo scope  predicts that he will die by steel.
ہمارے حکمران بھی کافی حد تک توہمات کے اسیر ہیں۔ زرداری اور بینظیر کا بھی ایک پیر تھا۔ اکثر اس کے آستانے پر حاضری دیتے، اگر جذب کے عالم میں وہ لٹھ مار دیتا تو یہ خوشی سے دہرے ہو جاتے۔ سمجھتے گوہر مراد ہاتھ آگیا ہے۔ شریف برادران نے پیرزادہ رکھا ہوا تھا۔ ہر وقت اسکے منہ سے رالیں ٹپکتی رہتیں۔ چودھری برادران کا بھی ایک پیر ہے۔ ان پڑھ، لیکن انتہائی چالاک، اب تفصیل میں کیا جانا ہے۔ سول سروس کا پیر پرویز مسعود تھا۔ چیف سیکرٹری، کالج کے دنوں باکسنگ کرتے ہوئے انہیں دماغ پر چوٹ لگ گئی۔ کافی عرصہ ہسپتال میں رہے۔ تندرست تو ہو گئے، لیکن اسکے اثرات عمر بھر رہے۔ اگر کسی افسر کو جھاڑ پلا دیتے تو وہ خوشی سے دہرا ہو جاتا۔ کولیگز سے باقاعدہ مبارکیں وصول کرتا۔ ’’بابے دی لٹھ وج گئی‘‘ اب مجھے ڈی سی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بالفرض خوشگوار موڈ میں ہوتے اور چائے وائے پلا دیتے تو ماتحت کا منہ لٹک جاتا۔ اسے بخوبی علم ہوتا کہ گوہر مراد ہاتھ نہیں آئیگا۔
نہ جانے کیسے یہ عقیدہ امت مسلمہ میں گھر کر گیا کہ دو خطبے حاکم وقت کیلئے بھاری ہوتے ہیں۔ اس کا پہلا اظہار تو ایوب خان کے وقت ہوا۔ اس نے جمعے کی عید جمعرات میں بدل دی۔ بڑی لے دے ہوئی۔ شاہی مسجد کے خطیب نے خطبے میں کہا ’’اصل عید تو کل ہے۔ آج ’’زہر امتثال امر‘‘ پڑھائی جا رہی ہے۔‘‘ اتفاق سے بھٹو کے دور اقتدار میں بھی جمعہ کی عید آگئی۔ وزیر مذہبی امور مولانا کوثرنیازی بڑے مشوش ہوئے۔ دست بستہ عرض کی۔ حضور! امت مسلم کے علمائے دین کی متفقہ رائے ہے کہ دو خطبے اقتدار کے سورج کو گہن لگا سکتے ہیں۔ ایوب خان کی پیروی کی جائے گی۔‘‘ بھٹو بڑا کائیاں تھا، چہرے پر مصنوعی گھبراہٹ پیدا کرتے ہوئے بولا۔ مولانا، تم نے درست فرمایا ہے۔ چودھری فضل الٰہی بہت بوڑھا ہو گیا ہے۔ اس طرح انہوں نے صدر مملکت اور سربراہ حکومت کا فرق واضح کر دیا۔ ناقدین کا خیال ہے کہ مولانا کو بھٹو سے زیادہ اپنی کرسی کی تشویش لاحق ہو گئی تھی۔ ہر حکومت کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ ایک آدھ مولوی کو کابینہ میں تبرکاً رکھے۔ اس سے اس کا اسلامی تشخص ابھرتا ہے۔ بالفرض مذہبی حوالوں سے کوئی تنقید یا یلغار ہو تو وزیر مذہبی امور کو بطور ڈھال استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک کا ذکر دلچسپ ہو گا۔ یہ میں نے اپنی زیرطبع کتاب ’’شاہ داستان‘‘ میں بھی رقم کیا ہے۔ چودھری فضل الٰہی صدر بنے تو ان کی کھاریاں سے قومی اسمبلی کی سیٹ خالی ہو گئی۔ مسلم لیگ نے اپنا امیدوار صوبیدار غلام رسول کھڑا کر دیا۔ انچارج چودھری ظہور الٰہی تھے۔ ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ خصوصی محنت کے بغیر سیٹ جیتنا مشکل ہوگا۔ الیکشن ایک قسم کا Vote of Confidence کی صورت اختیار کر گیا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ بھٹو صاحب نے مولانا کوثر نیازی کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ ہر روز کھاریاں کے کسی نہ کسی گائوں میں جلسہ کریں۔ رمضان کی فضیلت اور روزے کی اہمیت بیان کریں۔ مولانا ہرفن مولا تھے۔ پیپلزپارٹی کا روحانی سرمایہ! بہترین مقرر! عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد مقررین کی جو کھیپ ہمارے حصے میں آئی ، اس میں یہ اور شورش کشمیری ہراول دستے میں تھے۔ شورش کی تقریر میں گھن گرج، ہمہمہ، طنطنہ تھا۔ انکے لب و لہجے میں ٹھہرائو، وثوق، تقین نمایاں تھے۔ 
شورش کا زیادہ زور شعروں پر ہوتا۔ یہ آیات کی اضافت بھی کر دیتے۔ مقصد مقابلہ انیس و دبیر نہیں ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا رنگ تھا۔ آ ہنگ تھا۔ انہیں عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کا ڈھنگ آتا تھا۔
مولانا ہر روز دن کے چار بجے کھاریاں کے ملٹری ایئر سٹرپ پر جہاز میں اترتے۔ ممتاز کاہلوں اور میں انہیں لینے جاتے (میںAC کھاریاں تھا) ان دنوں یقینا علیل ہونگے کیونکہ کھاریاں کے ریسٹ ہائوس میں ہمیں انکی پرہیزی خوراک کا بندوبست کرنا پڑتا۔ ڈاکٹر کی ہدایت کیمطابق کھانے میں صرف مرغ مسلم، مٹن، چانپس اور تلی ہوئی مچھلی پسند فرماتے۔ پھلوں میں سیب، آڑو اور خوبانی پر اکتفا کرتے۔ مولوی ہونے کے باوجود حلوے سے اجتناب برتتے۔ البتہ فروٹ کسٹرڈ، پڈنگ اور جیلی طوعاً و کرہاً کھا لیتے۔ اسکے بعد کسی نہ کسی گائوں میں جلسے کا بندوست ہوتا۔ مولانا صاحب رمضان کی فضیلت، روزے کی اہمیت، تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن پر ا ور اسلام کی سربلندی کا ذکر کرتے ہوئے اکثر آبدیدہ ہو جاتے۔ شام کو انکے اعزاز میں افطاری کا اہتمام ہوتا۔ کھجور کا دانہ اٹھاتے ہوئے خصوصی دعا فرماتے اور روزہ کھولنے سے پہلے اس بات کا پوری طرح اطمینان کر لیتے کہ خورشید کی کشتی ٹوٹ کر پوری طرح غرقاب نیل ہو چکی ہے۔ رات کو لالہ موسیٰ سے اپنے خصوصی سیلون میں راولپنڈی تشریف لے جاتے۔ یہ ہر روز کا معمول تھا۔  (جاری) 

ای پیپر دی نیشن