ملک کو بحرانوں سے کیسے نکالا جائے؟

گزشتہ 75 سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے، گوں ناگوں مسائل کے گرداب میں گھرا ہوا ہے۔ کبھی معاشی مسائل تو کبھی دفاعی چیلنجز، کبھی آئینی سیاسی بحران تو کبھی دہشت گردی و امن و امان کے مسائل۔ غرض 1947 ء سے لیکر آج تک وطن عزیز معاشی، سیاسی، سماجی اور معاشرتی بحرانوں کی زد میں ہے۔ 14 اگست 1947 ء کو قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ ملک کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے، آپ کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامیانِ برصغیر اپنے لیے ایک آزاد، خودمختار مملکت پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم اس عظیم کامیابی کے بعد اس نئے آزاد ملک کو بنانے، سنوارنے اور اِسے تعمیر و ترقی کے راستے پر ڈالنے کا موقع آپ کو میسر نہ آسکا اور اگلے سال ہی 11 ستمبر 1948 ء کو 72 سال کی عمر میں آپ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ قائد اعظم علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد ملک و قوم کی قیادت کی ذمہ داری قائد ملت لیاقت علی خان کے کندھوں پر آئی۔ آپ نے اپنی غیرمعمولی قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ تاہم زندگی نے وفا نہیں کی اور 16 اکتوبر 1951 ء کو (جب آپ کی عمر 56 سال تھی) آپ راولپنڈی کے موجودہ لیاقت باغ میں اس وقت شہید کردیے گئے جب آپ ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب فرمارہے تھے۔ 
ہر پاکستانی بجا طور پر آج بھی اس سوچ میں مگن ہے کہ مسلمانانِ برصغیر کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں کلمہ طیبہ لااِلٰہ اِلا اللہ محمد الرسول اللہ کے نام پر حاصل کردہ مملکتِ خداداد پاکستان، جس کا خواب علامہ ڈاکٹر محمد اقبال علیہ الرحمہ اور دیگر اکابرین نے دیکھا اور جس کی تعبیر قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اسلامیان برصغیر کو دیکھنا نصیب ہوئی، آج تک گوناگوں مسائل میں کیوں گِھرا ہوا ہے؟ اور یہ کہ ملک و قوم کو مسائل کے اس گرداب سے نکالنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟ بحیثیت ایک آزاد اور خودمختار قوم ہم کب اپنے وسائل کیساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور بیرونی استعمار سے آزاد ہوکر ایک باوقار قوم کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہونگے؟ یہ سوالات ہر محب وطن پاکستانی کے دل و دماغ میں گردش کرتے نظر آتے ہیں لیکن جواب ندارد۔ بین السطور ہم انہی سوالات کے پس منظر میں چھپی وجوہات اور ان سوالات کے حل کے لیے جواہات کی شکل میں ایک عمومی تجزیہ کیا گیا ہے جس کے اہم نکات انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ عام پاکستانی یہ جان سکے کہ بحران در بحران کا شکار پاکستانی قوم کیونکر ان مسائل سے نکل کر تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔
 تمام دینی و دنیاوی مسائل کے حل کے لیے اتباعِ شریعت اور قرآن و حدیث سے رہنمائی ہی تمام دنیا وی مسائل سے نجات اور فلاحِ خروی کا واحد ذریعہ اور راستہ ہے۔ 
ملک و قوم کو معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر غیر ترقیاتی اخراجات میں مناسب حد تک کمی لائی جائے اور تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں، کارپوریشنز اور افراد کو اس پالیسی پر عملدرآمد کا پابند بنایا جائے۔ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ، تمام سول ملٹری ادارے اپنے غیر ترقیاتی اخراجات و مراعات میں 50 فیصد تک کمی لاکر ملک و قوم کو کمرتوڑتی مہنگائی سے نجات دِلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ 
نظامِ مملکت و حکومت چلانے کے لیے ملکی و بین الاقوامی اداروں سے بطور قرض لی گئی رقم کے غیر پیداواری سرگرمیوں کے لیے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے اور مالیاتی ذمہ داری اور قرض کی حد سے متعلق پہلے سے نافذ العمل قانون میں درج جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زائد قرض نہ لینے کی شق پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
من حیث القوم سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی کے لیے حکومتی سطح کے اقدامات کیے جائیں۔ تشدد، بدکلامی، گالم گلوچ، بدتہذیبی پر مبنی رویوں کو سیاست سے خارج کیا جائے اور باقاعدہ قانونی پابندی عائد کی جائے۔ بدتہذیبی اور ماورائے اسلام، ماورائے اخلاق و تہذیب طرز عمل کو فروغ دینے والی سیاسی جماعتوں/ افراد کا سیاست میں حصہ لینا اور بحیثیت عوامی نمائندہ منتخب ہونا ممنوع قرار دیا جائے۔
سادگی، کفایت شعاری، ایمانداری، احساس ذمہ داری، بلاتفریق اور بغیر کسی لالچ و حرص کے ریاستی عوامی خدمات سے متعلق ذمہ داریوں کی انجام دہی کو فروغ اور رشوت، کرپشن، اقرباء پروری، کام چوری، غیرذمہ داری، وسائل اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے معاشرتی خرابیوں کی بیخ کنی کی جائے۔ ایمانداری اور احساس ذمہ داری کو مجموعی قومی رویہ اور شعار بنالیا جائے۔ 
سیاست کو حقیقی معنوں میں عوامی خدمت کا ذریعہ بنایا جائے۔ سیاسی اختلافِ رائے کو ذاتی دشمنی میں نہ بدلا جائے۔ تشدد، اشتعال انگیزی، فتنہ پروری پر مبنی سیاست ترک کی جائے۔ تحمل، برداشت، رواداری، باہمی احترام پر مبنی سیاست کو فروغ دیا جائے۔ معاشی، سیاسی، سماجی، معاشرتی سمیت تمام قومی مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیک ہولڈرز کے اتفاق رائے پر مبنی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ 
پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اور اقبال کے وژن کے مطابق اسلامی فلاحی مملکت بنانے اور تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لیے آئین پاکستان میں درج اسلامی دفعات پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔حکومتی اور غیرحکومتی سطح پر سود ی لین دین کی ممانعت اور ملک میں غیر سودی نظام کے نفاذ سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ تاریخ ساز فیصلے پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔

ای پیپر دی نیشن