لاہور (اپنے نامہ نگار سے) لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے انتخاب کو کالعدم قرار دینے اور کام سے روکنے کی تحریک انصاف کی درخواست پر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز، اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو 20 جون کے لیے نوٹس جاری کر دئیے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی معاونت کیلئے طلب کر لیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر فریقین معاونت کریں کہ کیا ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کر سکتے ہیں یا نہیں۔ جسٹس صداقت علی خان نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں؟۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حمزہ والا معاملہ غیر موثر نہیں ہو گیا؟۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ووٹ کا شمار ہونا یا نہ ہونا ایک الگ آئینی معاملہ ہے، منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے پر وہ سپریم کورٹ چلے گئے۔ جسٹس صداقت علی خان نے کہا ہمارے پاس حلف کی حد تک معاملہ چل رہا ہے، مگر سپریم کورٹ کا حکم آچکا ہے کہ منحرف ارکان کے ووٹ شمار نہیں ہونگے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے باہر کیسے نکلیں؟۔ جو پنجاب میں الیکشن ہوا ہے اس پر سپریم کورٹ کا آرڈر آ چکا ہے، لارجر بنچ کو دونوں فریقین اس پوائنٹ پر مطمئن کریں۔ وکیل حمزہ شہباز نے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ ماضی کے الیکشن پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ جسٹس صداقت علی خان نے کہا جب سپریم کورٹ کا حکم آ جاتا ہے پھر زیر التوا کیسز پر اسکا اثر ضرور ہوتا ہے۔ جسٹس شاہد جمیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر الیکشن والا معاملہ حل ہو جائے تو حلف والا معاملہ تو ویسے ہی غیر موثر ہو جائے گا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا الیکشن کے بعد منحرف ارکان کو الیکشن کمیشن نے ڈی سیٹ کردیا، منحرف ارکان کو الیکشن کمشن نے سزا دے دی، سرکاری وکیل نے تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق اعتراض اٹھایا۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا پانچ رکنی بینچ حلف والے معاملے پر اب بھی سماعت کر سکتا ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواست گزار تحریک انصاف کی ارکان ہیں لہٰذا ان کے پاس اسمبلی سے رجوع کرنے کا اختیار موجود ہے، وہ حمزہ شہباز کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا سکتے ہیں، درخواست قابل سماعت نہیں ہے اس لیے خارج کی جائے۔
نوٹس جاری