مہاتیر محمد اور غربت

Jun 08, 2022

آئن سٹائن نے کہا تھا۔ ’’رِسک لو یا موقع گنوا دو‘‘ زندگی جہد مسلسل کا نام ہے۔ مہاتیر محمد ملائشیا کے تین بار وزیراعظم رہے۔ انھو ں نے ملائیشیا کو ایک خوشحال ترقی یافتہ اور اندرونی طورپر پُرامن ملک میں بدل دیا۔ وہ جھونپڑ پٹی میں پیدا ہوا۔ میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وہ سنگاپور چلا گیا۔ اس کی بیوی سیتی ہشما اسکی کلاس فیلو تھی۔ ان دونوں نے سات بچوں کی پرورش کی، جن سے تین بچوں کو گود لیا۔ پہلے ڈاکٹر اور پھر سیاست دان بنا۔ وہ زیادہ وقت اپنے بچوں میں گزارتا۔ 31 اگست 1957ء میں ملایا کو آزادی نصیب ہوئی۔  1957ء میں اپنے آبائی قصبے ایلورستار میں اپنا کلینک کھولا۔ کلینک کھولنے کے ساتھ ہی اس نے سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ وہ 39 سال کی عمر میں پہلی بار 1964ء میں پارلیمنٹ کا ممبر بنا۔ اس زمانے میں بھی اپنی پریکٹس جاری رکھی۔ 1974ء میں منسٹر بننے تک میڈیسن کے پیشے سے وابستہ رہا۔ ملک کو معاشی طور پر خوشحال بنانے اور نسلی گروہوں کے درمیان مساوات پر مبنی معاشرہ کی تخلیق کرنے کیلئے اس نے سوچ بچار شروع کی۔
 1972ء میں پارٹی میں اسکی ممبرشپ بحال کر دی گئی اور وہ سینیٹر بن گیا۔ 1974ء میں الیکشن جیتنے کے بعد کابینہ میں بطور وزیرتعلیم شامل ہوا۔ اسکے دو سال بعد 1976ء میں نائب وزیراعظم منتخب ہوا اور پھر 1981ء میں وزیراعظم بن گیا۔ وزیراعظم بننے کے بعد اس نے پہلا حکم یہ دیا کہ آزادی سے اب تک کیے جانیوالے تمام کاموں کا جائزہ لیا جائے۔ تمام تر سیاسی اور حکومتی امور کے ساتھ ساتھ نوکرشاہی کی کارکردگی کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ جہاں مناسب سمجھا وہاں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ تمام حکومتی ملازمین کے حقوق و فرائض کے چارٹ بنائے گئے۔ جن میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ کسے کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ انتظامی امور کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور سخت ہدایات جاری کی گئیں کہ تمام حکومتی ملازمین ملک و قوم کی فلاح و بہبود کیلئے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔آج کل پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے جس کی وجہ سے پٹرول کی قیمتیں ایک ہفتے میں دو بار بڑھا کر 60 روپے فی لٹر اضافہ کر دیا گیا۔ مہاتیر محمد نے اپنے ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نکالا۔ اس نے لکھا ’’مئی 1998ء میں آئی ایم ایف کے مطالبات انڈونیشیا میں صدر سوہارتوں کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنے۔ 
سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر نے 5 اکتوبر 1998ء کے انٹرنیشنل ہیرالڈ لڑیبیون کیلئے اداریہ لکھتے ہوئے تحریر کیا کہ انڈونیشیا جو وسیع قدرتی ذخائر کا حامل ملک ہے اور جس کی اقتصادی پالیسیوں اور مینجمنٹ کی ورلڈ بینک نے بھی تائید کی ہے، آئی ایم ایف نے اس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے پندرہ بینک بند کر دے اور تیل پر سے اجارہ داریوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ سبسڈی کو بھی ختم کرے۔ جب یہ سبسڈیز ختم کی گئیں تو تیل اور خوراک کی قیمتوں میں ایک بڑا اضافہ واقع ہوا۔ جس سے چینی اقلیت کیخلاف نسلی فسادات کا آغاز ہوا جو کہ ملکی کاروبار کے ایک بڑے حصے کے مالک ہیں۔ جس کے نتیجے میں انڈونیشیا سے ساٹھ بلین یو ایس ڈالر کا انخلا ہوا۔ زر کے اس بحران سے معیشت برباد ہو گئی اور اپریل 1998ء تک سوہارتو کی حکومت اس دھماکے کی نذر ہو گئی۔ زر کا یہ بحران اقتصادی بحران کی صورت اختیار کر گیا جس نے بالآخر سیاسی اداروں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں جس سے کسی بھی قسم کی حقیقی معاشی اصلاح تعطل کا شکار ہو گئی۔ خوش قسمتی سے ملائیشیا نے آئی ایم ایف کی یہ کڑوی گولی قبول نہ کی کیونکہ ہمارے خیال میں دوا بیماری سے زیادہ مہلک تھی اور ہم نے بڑی ہٹ دھرمی سے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اگر کبھی ہم نے انکی بات مان لی ہوتی تو آج مزید مسائل سے دوچار ہوتے جس کے نتیجے میں نہ صرف ہمیں اپنے سرمائے سے ہاتھ دھونا پڑتے بلکہ ہم اپنی سرحدوں پر حکومت کرنے کی صلاحیت سے بھی جاتے رہتے۔ ہم نے ایک مختلف راستہ اختیار کیا۔ ہماری حکمت عملی کو پہلے پہل دنیا نے حیرت اور شک کی نگاہ سے دیکھا لیکن پھر حیرت انگیز طور پر تھوڑے ہی عرصے میں بین الاقوامی اقتصادی نظام کے مستقبل پر ایک سنجیدہ بحث کا آغاز ہوا جس کے بارے میں شاید اس سے پہلے سوچا نہیں جا سکتا تھا۔ آئی ایم ایف، بحران کا شکار معیشتوں کو توانائی دینے کے بجائے انکی قبریں کھود دیتا ہے۔
 آج کا بڑا سوال یہ نہیں ہے کہ کیسے آئی ایم ایف کے طریقہ کار میں بہتری ہو سکتی ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی معیشتوں کو ایسے معالج کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں جسکے پاس تمام بیماریوں کا حل ایک ہی دوا میں ہے۔ یا ہم خود کو زر کے چند اجارہ داروں کے حوالے کر دیں، جن کی نہ تو کوئی تاریخ ہے اور نہ انکے دل میں انسانیت کیلئے کوئی جگہ۔ میں کبھی بھی اپنے خطے کو ایسے بے حس اور ناتجربہ کار ہاتھوں میں کھیلتے نہیں دیکھ سکتا‘‘ ۔ کیا پاکستان، مہاتیر محمد کے ان مشوروں پر عمل کر کے آئی ایم ایف سے چھٹکاراہ حاصل نہیں کر سکتا؟ ذرا سوچیے۔ 

مزیدخبریں