ملتان(خصوصی رپورٹر) نشتر ہسپتال میں 20 کروڑ روپے سے ادویات کی بجائے غیر ضروری ڈسپوزیبل آئٹمز کی خریداری میں بے ضابطگیوں کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ان میں 30 ہزار سینی ٹائزر خریدے گئے جبکہ کرونا کٹس اور گلوز و دیگر غیر ضروری ڈسپوزیبل آئیٹمز بھی شامل ہیں۔اس سب کے باوجود ضروری ادویات خریدنا گوارہ نہ کیا گیا۔ اس پر محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کئیر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن پنجاب کی جانب سے چھ رکنی انکوائری کمیٹی نشتر ہسپتال ملتان پہنچ گئی۔جس کے بعد ہسپتال میں کھلبلی مچ گئی۔مذکورہ کمیٹی نے آتے ہی ریکارڈ کی پڑتال کیلئے دستاویزات مانگ لی ہیں۔واضح رہے چھ رکنی کمیٹی میں گورنمٹ آف پنجاب کا کنٹریکٹ منیجر۔ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر جناح ہسپتال لاہور خلیل احمد۔ثناء علی۔شرجیل اسلم۔حماد الرب سمیت دیگر پر مشتمل ہے۔جو اپنی رپورٹ تین دن کے اندر پیش کریں گی۔بتایا جارہا ہے کہ نشتر ہسپتال میں سال 2021۔ 22 کی پروکیورمنٹ پرائسز میں بے ضابطگیوں پر چھان بین کی جارہی ہے ۔واضح رہے کہ سابق ایم ایس ڈاکٹر عاشق ملک کے دور میں بھی ادویات کے ٹرک غائب ہو گئے تھے اور ہسپتال کے مریضوں کو کوئی دوا نہیں ملتی تھی۔نشتر فارمیسی سے اومیپرازول کے ٹیکے بھی غائب ہوئے جو آج تک نہیں ملے اور کیس کی فائلیں دب گئیں۔ نشتر ہسپتال کے میڈیسن اور سرجیکل وارڈز کی تزئین وآرائش میڈیسن کمپنیاں کرتی ہیں جس کے عوض ان وارڈز کے ڈاکٹرز غریب مریضوں کو ان کمپنیوں کی مہنگی ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔وارڈز کے ڈاکٹروں کو میڈیسن کمپنیوں سے جو سیمپلز دئیے جاتے ہیں ڈاکٹرز یہ سیمپلز اکھٹے کرکے انکی میڈیکل سٹورز کو بولی کے ذریعے سیل کرتے ہیں۔حالیہ ڈسپوزیبل آئیٹمز کی پرچیز اور انکوائری پر موجودہ ایم ایس نشتر ہسپتال ڈاکٹر نبیل سلیم نے بتایا کہ یہ سب کچھ سابق ایم ایس ڈاکٹر امجد چانڈیو اور سابق اے ایم ایس فارمیسی نے کیا جبکہ فارمیسیوں میں چار چار ادویات تک بھی موجود نہیں ہیں۔ نشتر ہسپتال کے سابق ایم ایس ڈاکٹر امجد چڈیو نے 89 دنوں کی چھٹی لے لی ہے۔بتایا جارہا ہے ڈاکٹر امجد چانڈیو کی نجی مصروفیت تھی۔اس لئے وہ چھٹی پر چلے گئے ہیں۔جبکہ انکی جگہ ڈائریکٹر نشتر ایمرجنسی میں ڈاکٹر قاضی ایوب ذمہ داریاں سنبھالیں گے