آرمی چیف کا واضح موقف، دفاعی بجٹ پر منفی باتیں اور آصف علی زرداری کی سوچ!!!!

گذرے برسوں میں بہت مرتبہ ایسا ہوا ہے جب سیاسی جماعتوں کی طرف سے افواج پاکستان اور سپہ سالاروں کو سیاسی مقاصد کے لیے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ تیئس برسوں میں پیش آنے والے واقعات کو ہی دیکھا جائے تو سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔ ان دنوں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے ناصرف جانے والے بلکہ ذمہ داریاں سنبھالنے والے آرمی چیف کو بھی ہدف بنایا۔ پی ٹی آئی نے تو شہداء کو بھی نہیں بخشا اور شہداء کے اہلخانہ کو بھی تکلیف پہنچائی۔ شہداءکی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا، بے حرمتی کی گئی اور نو مئی کو تو یہ منفی حکمت عملی انتہا کو پہنچی جب فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ جی ایچ کیو اور لاہور میں جناح ہاﺅس جو کہ کور کمانڈر ہاﺅس بھی ہے نشانہ بنایا گیا اس کے علاوہ بھی مختلف شہروں میں ایسے ہی جلاﺅ گھیراو¿ کی حکمت عملی اختیار کی گئی تو ریاست اور دفاعی اداروں کے پاس قانون توڑنے اور قومی تشخص کو تباہ کرنے کی کوششیں کرنے والوں کےخلاف کارروائی کے سوا کوئی راستہ نہ بچا ۔ ریاست نے فیصلہ کیا اور شرپسندوں کےخلاف کارروائیاں اب بھی جاری ہیں۔ افواج پاکستان نے اپنا موقف پیش کیا اس حوالے سے گذشتہ روز فارمیشن کمانڈرز کانفرنس میں نو مئی کو پیش آنے والے دلخراش واقعات کے ذمہ داروں کے گرد قانون کی گرفت مضبوط کرنے کی بات ہوئی ہے۔ یہ افواج پاکستان کے سربراہ کی طرف سے ملک کو نقصان پہنچانے والوں کےلئے واضح موقف ہے۔ 
آئی ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ "کثرت سے جمع کیے گئے ناقابلِ تردید شواہد کو جھٹلایا اور بگاڑا نہیں جا سکتا۔ بگاڑ پیدا کرنے کی تمام تر کوششیں اور فرضی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے پیچھے پناہ لینے کی تمام تر کوششیں بے سود ہیں۔ قوم کے بھرپورتعاون سے تمام ترناپاک عزائم کو ناکام بنایا جائے گا، ملک دشمن عناصر اور ان کے حامی پروپیگنڈا سے معاشرتی تفرقہ پیدا کرنے اور انتشار پیدا کرنے کی بھرپورکوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کی عوام اور مسلح افواج کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو قومی سلامتی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، 25 مئی کی تقریبات میں عوام کی بھرپور شرکت افواج پاکستان اور عوام میں گہر ے تعلق کی واضح عکاسی کرتی ہیں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کے بے بنیاد الزامات کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا ہے، اس کا مقصد مسلح افواج کو بدنام کرکے مذموم سیاسی مفادات کا حصول ہے۔"
گذشتہ بارہ پندرہ مہینے اس حوالے سے بہت تکلیف دہ رہے ہیں۔ بہرحال ریاست اور پاکستان کے دفاعی بجٹ پر بہت باتیں ہوتی ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس مہم کا حصہ ملک کے اندر رہنے والے بنتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ملک کے دفاع کے خلاف ہیں یا دفاعی بجٹ انہیں تنگ کرتا ہے۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے ایسی باتیں کرنے والے خود کو بہت بڑے مفکر سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دفاعی ضروریات کے حوالے سے مکمل طور پر لاعلم اور ناواقف ہوتے ہیں ۔ یہ سنی سنائی باتوں پر بیانیہ بنانے اور غیر منطقی دلائل دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ ایسی بے وزن باتیں کرتے ہیں کہ عقل پر ماتم کا دل چاہتا ہے ۔ چونکہ یہ طبقہ امراء کا ہوتا ہے، کچھ سیاسی خاندانوں سے ہوتے ہیں، کہیں کہیں مقبول و معروف بھی ہوتے ہیں تو لوگ انہیں سنتے بھی ہیں ایسے لوگوں کی اکثریت پاکستان کے دشمنوں کے عزائم کو نظر انداز کرتے ہوئے دفاعی بجٹ کو نشانہ بناتی ہے۔ یہ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ درست ہے ملک میں وسائل کی تقسیم کے حوالے سے دوہرا معیار ضرور ہے لیکن اس کی وجہ دفاعی بجٹ ہرگز نہیں بلکہ حکومتوں کی بدانتظامی ہے لیکن دفاعی ضروریات کو نظر انداز کرتے ہوئے اخراجات پر واویلا کرنے والے یہ پہلو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہیں ۔ پاکستان کا ہمسایہ اس کا ازلی دشمن بھارت ہے اس کے دفاعی بجٹ اور اقدامات پر نظر دوڑائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی عزائم کیا ہیں۔ اپنے ہی ملک کے دفاعی اخراجات پر سوال اٹھانے والوں کو اندازہ ہے کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا تو کیا ہوتا، کیا بھارت نے ایٹمی طاقت کسی اور کے لیے حاصل کی تھی اس کے لیے سب سے بڑا ہدف تو پاکستان ہی ہے بھارت کے دانت کھٹے کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ضروری ہے۔ اس حوالے سابق صدر آصف علی زرداری نے بہت اہم بات کی ہے۔ آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ فوج کا بڑا خرچ نہیں اس حوالے سے خوامخواہ اس پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ زرداری صاحب کی طرف سے یہ اعتراف اور اظہار خوش آئند ہے لیکن یہ سوچ مستقل رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ لازم نہیں کہ جب کوئی جماعت حکومت میں ہو تو اسے دفاعی بجٹ پر کوئی اعتراض نہ ہو اور جب کوئی جماعت حکومت کا حصہ نہ ہو تو اس کا سب سے بڑا ہدف ہی دفاعی بجٹ ہی ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سیاست نہیں ریاست کا معاملہ ہے اور سیاست دانوں کو اس حوالے سے سیاسی فوائد کے بجائے ریاست کے مفادات کو ترجیح دینی چاہیے۔ ریاست کے مفادات کو ترجیح دی جائے تو دفاعی بجٹ پر پروپیگنڈہ نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کو اس حوالے سے اپنے کارکنوں کے ساتھ حقیقت سے قریب تر باتیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بھارت کے مقابلے میں دفاع پر بہت کم خرچ کرتا ہے لیکن پھر بھی دفاعی بجٹ پر تنقید ہوتی رہتی ہے۔ پاکستان کے دفاع کے مخالف تو اس کے دشمن ہیں اگر اپنے لوگ ایسی باتیں کریں تو پھر دل دکھتا ہے۔ ایک طرف ہمارے فوجی جوان سرحدوں کی حفاظت کے لیے، دشمنوں کی چالوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیتے رہتے ہیں تو دوسری طرف اس بجٹ پر تنقید کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاع کیلئے 1800 ارب روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت کا بجٹ دیکھیں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ دونوں ممالک میں اس حوالے سے کتنا واضح فرق ہے۔ بھارت پاکستان سے بڑا ملک ہے لیکن دفاعی اخراجات کو دیکھیں تو وہ اس حوالے سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
بہرحال ہمیں ناصرف اپنے دفاع کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دفاعی اداروں کو اعتماد دینے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ یہ ہمارے اپنے ہیں ۔ ہم سوتے ہیں یہ جاگتے ہیں، ہم زندگی کے مزے لیتے ہیں وہ موسموں کہ سختیاں برداشت کرتے ہیں، ہماری آزاد زندگی کے لیے وہ اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ 
ہمارے سیاست دانوں کو اب یہ سیکھ جانا چاہیے کہ وہ دفاعی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا سلسلہ بند کریں۔ سیاست دان اپنی ناکامیوں کو دفاعی اداروں کے کھاتے میں ڈالنے کا سلسلہ بھی بند کریں ۔ دنیا بھر اور بالخصوص تمام طاقتور ممالک کو دیکھا جائے تو وہاں اہم فیصلوں میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بہت واضح نظر آتا ہے۔ وہاں فیصلے باہمی رضامندی سے کیے جاتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے فیصلوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں جب تک سیاسی فائدہ ہوتا ہے اس وقت تک اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو اہمیت دی جاتی ہے۔ سیاسی مفاد ختم ہوتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال پاکستان تحریک انصاف کی دفاعی اداروں بارے پالیسی ہے۔ کبھی ایک پیج پر ہونے کے نعرے فخریہ انداز میں لگائے جاتے تھے اور کبھی ایک پیج والی کتاب کو ہی آگ لگا دی گئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو پاک وطن کی خاطر مضبوط دفاع اور بہتر مستقبل کے لیے مضبوط معیشت کے لیے کام کرنا ہو گا۔
آخر میں قتیل شفائی کا کلام
کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح
وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح
کسے خبر تھی بڑھے گی کچھ اور تاریکی
چھپے گا وہ کسی بدلی میں چاندنی کی طرح
بڑھا کے پیاس مری اس نے ہاتھ چھوڑ دیا
وہ کر رہا تھا مروت بھی دل لگی کی طرح
ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی نہ بن سکا اپنا
قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح
کبھی نہ سوچا تھا ہم نے قتیل اس کے لیے
کرے گا ہم پہ ستم وہ بھی ہر کسی کی طرح

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...