پیپلز پارٹی کے تاحیات مرد حر آصف زرداری نے لاہور میں کارکنوں سے جو گفتگو کی ہے، وہ سیاسی اور اخباری حلقوں میں موضوع بحث بلکہ موضوع حیرت بنی ہوئی ہے ۔ گفتگو کیا تھی، عارفانہ کلام تھا جسے صاحب عرفان ہی سمجھ سکتے ہیں۔ فرمایا، ”یہ“ دو مہینوں میں الیکشن نہیں کرا سکتے، الیکشن تبھی ہوں گے جب میں چاہوں گا۔
”یہ“ سے مراد کون ہیں؟۔ کیا وزیر اعظم؟۔ اگر ایسا ہے تو فقرے کا مطلب کچھ یوں ہو گا کہ وزیر اعظم دو مہینوں میں الیکشن کرانا چاہتے ہیں لیکن نہیں کرا سکتے۔ لیکن اس مطلب کا بھی تو کچھ مطلب ہو گا۔
الیکشن تبھی ہوں گے جب میں چاہوں گا سے لگتا ہے کہ کسی خفیہ بندوبست کے نتیجے میں زرداری صاحب نے چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات بھی سنبھال لئے ہیں۔ اس لئے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان صرف الیکشن کمشن کا اختیار ہے۔ کچھ ہفتے پہلے عدالت نے یہ اختیار کسی غلط فہمی کی بنیاد پر صدر مملکت کو دے دیا تھا لیکن اس پر الیکشن کمشن نے رٹ دائر کر دی۔ بہرحال، سوال یہ ہے کہ آصف زرداری کب چاہیں گے کہ الیکشن کب ہوں ؟۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ الیکشن یا تو اکتوبر میں ہوں گے یا پھر نومبر میں اور آصف زرداری کی ساری بااختیاری ان دونوں میں کسی ایک مہینے کو ”چاہنے“ تک ہے۔
________
دوسرا نکتہ¿ معرفت زرداری صاحب نے یہ بیان فرمایا کہ اگلا وزیر اعظم بلاول بھٹو ہو گا، یعنی مرکز میں حکومت پیپلز پارٹی کی بنے گی۔ مزید فرمایا کہ کارکنوں کو ایسی خوشی ملنے والی ہے کہ انہوں نے سوچی بھی نہیں ہو گی۔ یعنی پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت بنے گی۔
اس نکتہ¿ معرفت کی بنیاد غالباً یہ نکتہ ہے کہ چونکہ شہباز شریف کی کارکردگی بطور وزیر اعظم صفر ہے، اس لئے مسلم لیگ الیکشن ہار جائے گی اور پیپلز پارٹی جیت جائے گی۔ برسبیل تذکرہ، شہباز شریف کی کارکردگی صفر ہونے پر سب لوگوں کا اتفاق نہیں ہے، کچھ کو اختلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کارکردگی صفر سے کچھ زیادہ ہے۔ بعض کہتے ہیں شہباز کی کارکردگی ایک صفر کے برابر نہیں، دو صفر کے مساوی ہے۔ بہرحال ، یہ اختلاف رائے تو چلتا رہتا ہے۔
لیکن یہ ”بنیاد“ پائیدار نہیں ہے۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اگر مسلم لیگ پنجاب کا الیکشن ہار جائے لیکن پیپلز پارٹی کے بجائے جہانگیر ترین اور علیم خاں کی وہ پارٹی جیت جائے جو ابھی ”زیر طبع“ ہے، یعنی بنی نہیں ہے البتہ بننے والی ہے۔
اس ”بنیاد“ کو دوسرا خطرہ اس امکان سے بھی ہے کہ نواز شریف پاکستان آ جائیں گے۔ اگر یہ امکان درست نکلا تو پنجاب میں مسلم لیگ کے لیے وہ ہوا پھر سے چل سکتی ہے جسے شہباز شریف نے پانچ سالہ کارکردگی سے بظاہر اکھاڑ پھینکا ہے (3 سال بطور اپوزیشن لیڈر) ایک سال سے بطور وزیر اعظم۔
________
پی ٹی آئی کو لوگ درجن نہیں، گرس کے حساب سے چھوڑ کر جا رہے ہیں لیکن یہ سارا نقصان ایک طرف، فیاض چوہان اور فردوس عاشق اعوان کے جانے کا نقصان دوسری طرف۔ پہلے سارے نقصان قابل تلافی، یہ دوسرے والا دہرا نقصان ناقابل تلافی تصور کیا جا رہا تھا۔
لیکن اللہ تعالیٰ کار ساز ہے، اس نے اس ناقابل تلافی نقصان کی تلافی بھی اعتزاز احسن کی شکل میں پوری کر دی۔ سچ تو یہ ہے کہ قابلیت اور لسانیت میں اعتزاز اکیلے ان دونوں چھوڑ جانے والوں پر بھاری ہیں۔
بس اتنی کمی ہے کہ پہلے سے زیادہ اٹک اٹک کر بولنے لگے ہیں جس کی وجہ صدمات کا وہ تسلسل ہے جو انہیں گزشتہ سال کے اپریل سے اب تک دیکھنا پڑے۔ پہلا صدمہ گزشتہ برس /10 اپریل کو دیکھنا پڑا، اس کے بعد سے تو جیسے در گھٹناﺅں زَنّارہی ٹوٹ پڑی۔ نہیں سمجھے؟۔ ارے بھئی تسبیح حوادث کے دانے ایک کے بعد ایک کر کے گرنے لگے، یعنی کہ....!
9 مئی کے سانحے نے تو بس کمر ہی توڑ کر رکھ دی۔ معاف کیجئے گا، 9 مئی نہیں، گیارہ مئی سمجھئے۔ 9 مئی کو تو کامیابی کے نغمے گونج رہے تھے، ۔11 مئی کو پتہ چلا کہ معاملہ ہی الٹ ہو گیا۔
بہرحال، سخت جان لیڈر ہیں، صدمات سے نکل ہی آئیں گے۔ اب 9 مئی کی ذمہ داری عمران خان نے پہلے ایجنسیوں پر پھر براہ راست فوج پر ڈال دی۔ مزید ترجمانی و تشریح اعتزاز احسن نے یہ سوال اٹھا کے کر دی کہ 9مئی کو پولیس کہاں تھی، وہ پراسرار طور پر غائب کیوں تھی۔
پولیس غائب نہیں تھی، بہت سے ”سانحات“ اسی پولیس نے روکے۔ میانوالی، سرگودھا، گوجرانوالہ میں ”پرجوش انقلابیوںکے چھاﺅنیوں تک پہنچنے کا خواب اسی پولیس نے چکنا چور کیا۔
لاہور کا واقعہ البتہ منفرد تھا لیکن اس ”انفرادیت“ کا نوٹس ادارے نے اپنے اندر ہی کے کچھ لوگوں کے خلاف لے لیا ہے۔ اعتزاز احسن کو بھی اچھی طرح پتہ ہے لیکن فیاض الحسن چوہان کی کمی پوری کرنے کے لیے وہ ان سوالات کو اٹھا رہے ہیں جن کا جواب سبھی جانتے ہیں اور سبھی میں اعتزاز بھی شامل ہیں۔
________
لاہور کے سانحے کے حوالے سے ایک اور مزے کی بات ہوئی ہے۔ کور کمانڈر ہاﺅس کے اندر سے ایک ”مشکوک“ آدمی نے دروازہ کھول کر بلوائیوں کو اندر بلایا۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے کئی دن مہم چلائی کہ سادہ لباس میں یہ ایک فوجی افسر ہے، اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سانحہ فوج نے کروایا۔ خود ”گریٹ خان“ نے اس کی وڈیو اپنے ٹویٹر ہینڈل پر اپ لوڈ کی اور یہ سوال لاجواب اٹھایا کہ اسے کیوں نہیں پکڑا گیا۔ اس سے میرا یہ موقف سچ ثابت ہو گیا کہ سانحہ ہمیں پھنسانے کے لیے خود فوج نے کروایا۔
پھر ہوا یوں کہ گزشتہ روز یہ ”فوجی افسر“ بھی گرفتار ہو گیا اور پتہ چلا کہ یہ آدمی پی ٹی آئی کا ایک اہم کارکن اور گریٹ خان کا ساتھی ہے۔ نام اس کا عمران محبوب ہے جس کی تشریح عمران کا محبوب کہہ کر بھی کی جا سکتی ہے۔
ہو سکتا ہے، اعتزاز اس پر بھی اعتراض وارد کر دیں ، یہ کہہ کر کہ وہ فوجی افسر ہی تھا لیکن یہ وہ نہیں ہے، اس کا ”ہمزاد “ ہے۔اصل کو تو پکڑا ہی نہیں۔ انصاف کی بات البتہ یہ ہے کہ یہاں خود گریٹ خان کو داد دینا بنتا ہے کہ اپنے قریبی ساتھی کو جانتے ہوئے بھی اس کی وڈیو اپ لوڈ کر دی۔
________
ملفوظات زرداری
Jun 08, 2023