سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ناگزیر

2016ءمیں جب پانامہ لیکس نہیں آئی تھیں تو ملکی معیشت بہترین طریقے سے چل رہی تھی اور ملک میں موٹرویز‘ گرین لائن سمیت میگاپروجیکٹس لگ رہے تھے اور سی پیک پر تیز پیشرفت ہورہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں مہنگائی کی شرح بھی قابو میں تھی۔ کاروبار اپنے عروج پر تھا اور بے روزگاری کی شرح بھی کم تھی۔ ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال بھی بہتر تھی کہ پانامہ لیکس کے نام سے عالمی سازش کی گئی اور پاکستان کے حکمراں خاندان سمیت سینکڑوں افراد کی بیرون ملک پراپرٹیز کا انکشاف کیا گیا۔ اس میں اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ پانامہ لیکس میں جن کے بھی نام آئے تھے‘ ان سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا لیکن صرف شریف فیملی کا ٹرائل کرکے ملک میں سیاسی فائدہ اٹھانے کی سازش کا آغاز ہوا اور پانامہ پر ٹرائل کرکے اقامہ کی بنیاد پر میاں نوازشریف کو تاحیات نااہل کیا گیا، 2018ءکے انتخابات میں میدان میں سے ن لیگ کو الگ کیا گیا اور تحریک انصاف کی حکومت بنائی گئی۔ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کے لئے جہانگیر ترین ہیلی کاپٹر میںبالکل قانونی اور حلال طریقے سے سرگرم رہے۔
تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملکی معیشت ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور مہنگائی و بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔ اسی دوران کرونا کی عالمی وبا آئی اور پھر دنیا بھر میں مہنگائی کا طوفان آیا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جس طرح کے حربے استعمال کئے گئے وہ مکمل طور پر ”حلال“ تھے اور پھر عمران خان نے جب اعتماد کا ووٹ لیا تو بھی وہ مکمل طور پر درست طرز عمل تھا کہ جس کے تحت وہ اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے لیکن ان کی حکومت کی ساڑھے تین سال کی بدترین کارکردگی اور ملک کی بدترین معاشی حالت کے باعث ان کے اتحادیوں نے ان کا ساتھ چھوڑنا شروع کیا تو وہ عمل غیر قانونی اور حرام قرار پایا۔اپوزیشن نے تحریک انصاف کے اتحادیوں سے رابطوں کے بعد وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو اسے بھی حرام قرار دیکر غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے فرار کی کوشش کی گئی لیکن سپریم کورٹ نے ان کے تمام اقدامات کالعدم قراردیکرپارلیمنٹ میں ووٹنگ کے ذریعے نئی حکومت کا راستہ ہموار کردیا۔
بہترتو ہوتا کہ آپ پارلیمانی جمہوری طریقے میں اپنی شکست کھلے دل سے تسلیم کرکے پارلیمنٹ میں موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرتے لیکن آپ نے اسمبلیوں سے استعفوں کی غلط ترین پالیسی اختیار کرکے اپنی ضد اور انا کے فیصلوں کا آغاز کیا۔ آپ نے مئی 2022ءمیں اسلام آباد پر لانگ مارچ کے ذریعے لشکر کشی کی۔ ایک طرف تو ساڑھے تین سال میں نااہل ترین حکمرانی سے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا پھر جب جمہوری طریقے سے نااہل حکومت ختم ہوئی تو انہوں نے احتجاج کے نام پر ملکی معیشت کو خراب کرنے کی بچی کھچی کوشش بھی کرلی ۔ اس سے قبل جب انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی تو انہوں نے اپنے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے برعکس ملکی معیشت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر عوام کو ریلیف دیکر صرف ذاتی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جس کی قیمت ملکی معیشت آج بھی برداشت نہیں کرپارہی اور آئی ایم ایف سے معاملات ایسے خراب ہوئے کہ اب تک معیشت کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
نئی حکومت نے آکر معیشت کے معاملات درست کرنے کے لئے دلیرانہ فیصلے کرکے عالمی معاہدوں کی پاسداری کی کوشش کی تو آپ نے ایسا سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ملک کے دیوالیہ ہونے کا ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ ڈالر اور سونے میں منتقل کردیا اور ملک بھر میں کاروبار کے تمام شعبے بہت تیزی سے زوال پذیر ہوگئے۔ ایسا کرنے پر بھی ان کی تشفی نہیں ہوئی بلکہ انہوں نے بدترین سیاسی عدم استحکام کے لئے اس دوران حکومت کی جانب سے مذاکرات اور بات چیت کی ہر پیشکش کو یکسر مسترد کرکے اپنی ضد اور انا کی خاطر پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں اپنی صوبائی حکومتیں قبل از وقت اسمبلیاں تحلیل کرکے ختم کردیں اور کوشش کی کہ دونوں صوبے آئینی پارلیمانی مدت کی تکمیل سے قبل الیکشن کراکر خان صاحب جیتنے کی کوشش کریں تاکہ بعد میں ہونے والے عام انتخابات کے لئے ان کی راہ ہموار ہو۔ ان کی ان تمام تر سیاسی چالوں اور حرکتوں میں جب اسٹیبلشمنٹ نے ان کا مزید غیر قانونی ساتھ دینے سے قطعی معذرت کرلی تو انہوں نے ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ شروع کردیا اور حالات کو یہاں تک پہنچادیا کہ 9مئی جیسا ملکی تاریخ کا سیاہ دن بھی آگیا۔
9مئی کے فوری بعد آپ اس کی پرزور مذمت کرتے لیکن اس میں بھی لیت و لعل سے کام لیا اور کئی دن بعد اس کی روایتی مذمت کی اور 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد سے لاتعلقی کا بیان دیکر اب تک کے حالات سے لاتعلق ہونے کی کوشش کی۔ 9مئی کے واقعات کا ذمہ دار کون ہے یہ تو درست تحقیقات سے ہی علم ہوسکتا ہے لیکن آپ کے ماضی قریب کے تمام بیانات اس ماحول کی وجہ بنے ہیں۔ آپ کو جس نے بھی یہ بیانیہ اختیار کرکے سیاست کرنے کا مشورہ دیا ہے وہ یقیناً پاکستان کا دشمن تو ہے ہی لیکن آپ کی سیاست کا بھی اولین دشمن ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ آپ مزید منفی سیاست ترک کرکے الیکشن کے انعقا د کو یقینی بنانے کے لئے جمہوری طرز عمل اختیار کریں اور اپنی ضد و انا کو پس پشت رکھ کر ملک اور ملکی معیشت کو اولین ترجیح دیں تاکہ غربت و مہنگائی میں پسے عوام موجودہ سیاسی عدم استحکام سے نکلیں اور ملک و معیشت پر سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بھی انتخابات کے انعقاد کے متعلق بالکل واضح اور دوٹوک پالیسی جاری کرے اور عمران خان بھی اکتوبر‘ دسمبر یا مارچ 2024ءتک بھی انتخابات کے یقینی انعقاد کو قبول کرکے اپنی الیکشن مہم کا آغاز کریں اور موجودہ طرز سیاست کا خاتمہ دونوں طرف سے ضروری ہے۔ 9مئی کے واقعات کے اصل مجرم تو کسی بھی طرح کی معافی کے حقدار نہیں باقی سیاسی انتقامی کارروائیوں کا ہر صورت خاتمہ ہونا چاہئے اور ملک کو سیاسی استحکام کی جانب لے جانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا قومی فریضہ ہے تاکہ غریب عوام کو مستقبل قریب میں ملک کی بہتری کی امید نظر آئے اور ملک میں سرمایہ کاری میں ممکنہ اضافہ ہوسکے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...