ملک بھر میں کاروباری مراکز رات آٹھ بجے بند کرنے کا  حکومتی فیصلہ اور تاجروں کی مزاحمت 

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں توانائی کے بحران پر قابو پانے اور بجلی کی بچت کے لئے ملک بھر میں دکانیں اور کمرشل علاقے رات آٹھ بجے بند کرنے، آئندہ مالی سال کے لئے گروتھ ریٹ تین عشاریہ پانچ فیصد مقرر کرنے، ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ایک سو پچاس ارب روپے کرنے اور فائیو ایز فریم ورک کی منظوری دے دی گئی۔ اسی طرح بجٹ میں نوجوانوں کی ترقی کے لئے سو ارب روپے مختص کرنے اور افراطِ زر کا ہدف 21 فیصد مقرر کرنے کی بھی منظوری دی گئی جبکہ زراعت کی ترقی کا ہدف تین عشاریہ پانچ فیصد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے بعد منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں توانائی بچت پلان پیش کیا گیا تھا جسے منظور کرتے ہوئے یکم جولائی سے ملک بھر میں دکانیں اور کمرشل ایریاز رات آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سے ملک کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی بچت ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول عالمی سطح پر بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے توانائی پاکستان کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ سعودی عرب نے ایک بار پھر یومیہ پیداوار دس لاکھ بیرل کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے باعث خطرہ ہے کہ سال کے آخر تک تیل کی عالمی قیمتیں سو ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیں گی۔ ہم فیوسل فیول اور تیل پر انحصار کریں گے تو ہماری معیشت اسی طرح خطرات میں گھری رہے گی۔ اس سے عہدہ براءہونے کے لئے ایک اقدام یہ ہے کہ ہم توانائی کی بچت کریں جس کے لئے اجلاس میں توانائی بچت پلان کی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے تحت دکانیں اور مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کرنے کے علاوہ لائٹس اور پرانے بلب ختم کر کے ایل ای ڈی لائٹس کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح گیزرز کی صلاحیت بڑھائی جائے گی۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ صوبائی حکومتیں این ای سی کے منظور کردہ توانائی بجٹ پلان پر عملدرآمد کرائیں گی۔ 
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ امریکہ اور یورپ جیسے بڑے بڑے ممالک بھی ، جو ہم سے زیادہ خوشحال ہیں اور بہت زیادہ امیر ہیں، رات دس ، گیارہ ،بارہ بجے تک کمرشل ایریاز کھولنے کی عیاشی برداشت نہیں کر سکتے۔ یورپ میں زیادہ سے زیادہ آٹھ بجے تمام کمرشل ایریاز بند ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح چین، ملائیشیا، انڈونیشیا سمیت کوئی بھی ہماری طرح غیر ذمہ دارانہ طرز زندگی نہیں اپناتا۔ اگر ہم توانائی پر اٹھنے والے اپنے اخراجات کنٹرول کر لیں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ تاجر تنظیموں نے اس حکومتی فیصلے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اتنا بڑا فیصلہ کرتے وقت حکومت نے سٹیک ہولڈرز کو مشاورت میں شامل کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ جب تک انہیں مطمئن نہیں کیا جائے گا، فیصلے پر عملدرآمد ممکن نہیں۔ حکومت تاجر تنظیموں سے رابطے کے لئے فوری طور پر بااختیار فوکل پرسن کا تقرر عمل میں لائے۔ 
بے شک زندہ قوموں کا یہی چلن ہوتا ہے کہ وہ اپنے وسائل ، ضرورتوں اور موسمیاتی تغیر و تبدل کو پیش نظر رکھ کر اپنی قومی پالیسیاں مرتب کرتی اور سختی کے ساتھ انہیں عملی جامہ پہناتی ہیں۔ کاروبارِ حیات اگر ڈسپلن میں رکھا جائے اور آبادی و وسائل کی بنیاد پر قومی ترقی کے منصوبے بنائے جائیں تو کسی بھی مرحلے پر کسی بھی شعبے میں کسی قسم کا بحران پیدا ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ ترقی یافتہ ممالک تو اگلے پچاس سال کے آبادی و وسائل کے معاملات کو پیش نظر رکھ کر ٹاﺅن پلاننگ کرتے ہیں اور عوام کی خوشحالی کے مراحل طے کرنے کے لئے اپنے وسائل کے اندر رہ کر ہی حکمتِ عملی طے کرتے ہیں اس لئے وہ ترقی کی رفتار میں سب سے آگے ہیں جنہیں کسی قسم کا مالی اور اقتصادی بحران بھی ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ لاحق نہیں ہونے دیتا۔ اسی طرح قانون کی پاسداری و عملداری بھی ترقی یافتہ مہذب معاشروں کا شعار ہے جس میں کوئی قانون توڑنے پر کوئی بھی شخص کسی رو رعایت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یقینا ڈسپلن اور قوانین کی سختی سے پابندی کرنے والے ممالک ہی ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جبکہ اس معاملے میں ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں شروع دن سے قانون اور قواعد و ضوابط کی پابندی کے بجائے زورزبردستی، اپنے مناصب و اختیارات کے ذریعے اور متعلقین کی مُٹھی گرم کر کے کام نکلوانے، قانونی شکنجے کی گرفت ڈھیلی کرانے اور اپنے لئے ناجائز رعایتیں حاصل کرنے کے کلچر کو پروان چڑھایا گیا۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں موجود مختلف پریشر گروپس بھی انتظامی، قانونی عملداری اور حکومتی گورننس کی ایک نہیں چلنے دیتے چنانچہ ہمارے معاشرے میں آج تک اصلاحِ احوال کی گنجائش ہی نہیں نکل پائی اور بے ڈھنگی چال ہمارا وطیرہ بن گیا ہے۔ 
آج ہمیں جن اقتصادی، مالی ، انتظامی، عدالتی اور توانائی کے بحرانوں کا سامنا ہے اور دنیا ہمارے دیوالیہ ہونے کا نظارہ کرنے کی منتظر ہے، ہماری بدنظمی اور قاعدے قانون کا عدم احترام ہی اس کی بنیادی وجہ ہے۔ ہمیں گزشتہ تین دہائیوں سے توانائی کے سنگین بحران کا سامنا ہے تو توانائی کی پیداوار کے لئے دستیاب ملکی وسائل بروئے کار نہ لانا ہی اس کی بنیادی وجہ ہے نتیجتاً یہ بحران سنگین سے سنگین تر ہو رہا ہے اور ہم بیرونی دنیا سے مہنگے داموں تیل، گیس خریدنے اور مہنگے ترین تھرمل اور رنٹل پاور پلانٹس سے بجلی حاصل کرنے پر مجبور ہیں جبکہ اس سے ملکی توانائی کی ضروریات بھی پوری نہیں ہو پاتیں۔ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ناروا شرائط والے شکنجے میں بھی ہم نے اپنی بے تدبیریوں اور بدنظمی اور اسی طرح قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کی روش کے باعث خود کو جکڑوا رکھا ہے اورآج نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے حکمرانوں سے عوام پر ظلم توڑنے والی ہر شرط منوا کر بھی ہمارا قرض پروگرام بحال کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس تناظر میں ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر زوال پذیر نظر آتا ہے جس میں نہ ہمارا سسٹم کسی ڈھب پر آیا ہے اور نہ ہی راندہ¿ درگاہ عوام کی حالتِ زار میں کوئی بہتری آئی ہے۔ حکومتوں پر عوام کا اعتماد ہی قائم نہیں ہو پاتا اس لئے انہیں کسی حکومت کے فلاحی اقدامات بھی اپنے لئے بوجھ محسوس ہوتے ہیں۔ 
اس صورت حال میں موجودہ اتحادی حکمرانوں نے این ای سی کے ذریعے توانائی بچت پروگرام ترتیب دیا ہے تو پہلے کی طرح اب بھی انہیں تاجر برادری سمیت مختلف طبقات کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ ایسی کسی عوامی مزاحمت کا موجودہ حکمران طبقہ اس لئے بھی متحمل نہیں ہو سکتا کہ اسے دو ماہ بعد آئندہ انتخابات کے لئے عوام کے پاس جانا ہے جن کا پارہ پہلے ہی بجلی، ادویات اور روزمرہ استعمال کی دوسری اشیاءکے نرخوں میں آئے روز کے بے مہابا اضافے کے باعث چڑھا ہوا ہے۔ اس تناظر میں حکومت کو توانائی بچت پلان پر عملدرآمد سے پہلے تمام سٹیک ہولڈرز کو مربوط مشاور ت کے ذریعے اعتماد میں لینا اور انہیں اس پالیسی کے مثبت مابعد اثرات پر قائل کرنا ہو گا ورنہ ایسے منصوبے تو حکمران پہلے بھی وضع کرتے اور ان پر عمدرآمد میں ناکامی کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن