آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
ماہ ذوالحج کا آغاز ہونے کو ہے فرزندان توحید فریضہ حج ادا کرنے کو بے چین و بے قرار ہیںاس مہینے کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ یہ دین اسلام کے پانچویں اہم ترین رکن کے نام سے جانا جاتا ہے اور دنیا بھر سے مسلمان حج کی ادائیگی کے لئے سرزمین حجاز جانے کا ارادہ کرتے ہیں ان دنوں بھی اس نیک عمل کے لئے پاکستان سے عازمین حج پہلی مرتبہ ”روڈ ٹو مکہ “پروگرام کے تحت پہنچ چکے ہیں یا پہنچ رہے ہیں جو کہ یقینا خوش آئند امر ہے
یاد آ رہا ہے کہ کئی سال قبل جناب مصطفی صادق بھی اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے جا رہے تھے محترم جمیل اطہر قاضی صاحب انہیں رخصت کرنے کے لئے ساتھ موجود تھے روانگی کا وقت ہوا تو جمیل اطہر قاضی صاحب نے جناب مصطفی صادق کی والدہ محترمہ سے درخواست کی کہ اماں جی دعاﺅں میں یاد رکھئےے گا یہ سن کر انکی والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ جمیل صاحب آپکو یاد نہیں رکھنا تو کس کو ےاد رکھنا ہے محترم جمیل اطہر نے عرض کیا کہ ماں جی آپ مجھے جمیل صاحب نہیں صرف جمیل کہا کریں جس پر انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ” تمہیں اللہ نے صاحب بنایا ہے میں صاحب نہ کہنے والی کون ہوتی ہوں “
یہ واقعی سچ ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ چن لیتا ہے اور اس صاف شفاف چناﺅ کے پیچھے خلوص، نیک نیتی، انتھک جدوجہد، نیک جذبات اور دیگر کئی مثبت عناصر کارفرما ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ اس کرہ ارض پر زمین کے کچھ قطعات بھی ایسے ہوتے ہیں جہاں کے باسیوں کو کسی نہ کسی خاص کام کے لئے چن لیا جاتا ہے جہاں کے باسی عزوشان کے مستحق ہی نہیں بلکہ حقدار قرار پا جاتے ہیں ایسی ہی کچھ تاریخ سرزمین سرہند کی بھی ہے ہمارے محترم جمیل اطہر قاضی بھی بھارت کی ریاست پٹیالہ کے قصبہ سرہندمیں 11 مئی 1941 ءکو پیدا ہوئے اس سرزمین کا خاص عکس ان کی شخصیت سے چھلکتا ہے ان کی بچپن کی یادیں سرہند سے جڑی ہیں ان کی شخصیت کی عکاسی وہی سرزمین کرتی ہے کہ عزت و حرمت اور استقلال جس کا مقدر ہے سرہند ہمیشہ سے اللہ کے برگزیدہ بندوں کی سرزمین رہی ہے پٹیالہ کا یہ تاریخی شہر سیاسی، دینی اور دیگر کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل رہا ہے یہاں کئی بار خانہ جنگی بھی ہوئی اور کئی اہم معرکے سرانجام دینے میں بھی یہ سرزمین ناقابل فراموش کردار ادا کرتی رہی اس کے چپے چپے میں مسلمانوں کے اسلاف کے مدفن ہیں جنہوں نے ظلمت و تاریکی میں اپنے حصے کی شمع جلائی رکھی اور کئی گل رنگ سویروں کی وجہ بنے حضرت شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی یہیںسے عالم گیر محبت لے کر اٹھے اور سرہند کو تصوف کی دنیا میں ایک اعلی اور ارفع مقام عطا کر گئے یہ فقیر خدا منش نہ وقت کے حکمرانوں کے سامنے جھکا اور نہ ہی اس نے منبر و مہراب سے اٹھنے والی مخالفتوں کی پرواہ کی انہوں نے ہمیشہ دین کے پردوں میں لادینیت پھیلانے والوں کے خلاف کلمہ حق بلند کیا حضرت مجدد الف ثانی کے پائے استقلال میں لغزش نہ پاتے ہوئے جہانگیر نے حکم دیا کہ حضرت مجدد اس کے دربار میں حاضر ہوں اور دربار کی روایت کے مطابق بادشاہ کو سجدہ تعظیمی بجا لائیں جس پر حضرت شیخ احمد سرہندی نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ سجدہ صرف خدا تعالی کو روا ہے اور وہ اس کے سوا نہ کسی کے سامنے جھکے ہیں اور نہ ہی کبھی جھکیں گے کوئی بھی فانی شخص سجدے کا سزاوار نہیں مجدد الف ثانی کے اس اعلان کے بعد جہانگیر مشتعل ہو گیا اور غصے میں حکم دیا کہ ان کو قلعہ گوالیار میں بند کر دیا جائے جہانگیر کے اس اقدام نے مجدد الف ثانی کے پیروکاروں کو سخت مضطرب کر دیا جبکہ مجدد الف ثانی گوالیار کے قید خانے میںصعوبتوں اور قفس میں بھی قیدیوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دیتے رہے یہ عزم استقلال و ہمت سرزمین سرہند کے ساتھ ایک عرصہ سے منسوب ہے علامہ اقبال نے مجدد الف ثانی کے لئے کیا خوب کہا تھا
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار
اس خاک کے زروں سے ہےںشرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحب اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
کی عرض یہ میں نے عطاءفقر ہو مجھ کو
آنکھیں میری بیناہیں و لیکن نہیںبیدار
ہمارے محترم جمیل اطہر قاضی بھی بھارت کی ریاست پٹیالہ کے قصبہ سرہندمیں 11 مئی 1941 ءکو پیدا ہوئے اس سرزمین کا خاص عکس ان کی شخصیت سے چھلکتا ہے ان کی بچپن کی یادیں سرہند سے جڑی ہیں ان کی شخصیت کی عکاسی وہی سرزمین کرتی ہے کہ عزت و حرمت اور استقلال جس کا مقدر ہے ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا لیکن آج نہ جانے کیوں لکھنے پر دل چاہتا ہے کہ محترم جمیل اطہر صاحب کی زندگی کی ابتداءہی وہاں سے ہوئی جہاں کا خمیر تھا ایک ایسے انسان جنہوں نے معاشرے کو معیاری اور اصلی صحافت سے روشناس کروایا جنہوں نے ادب و ادیب کی عزت سے آگاہ کیا جنہوں نے سکھایا کہ اخباری کارکنوں سے کس طرح حسن سلوک رواں رکھا جاتا ہے ایک ایسے انسان جو اپنے دوستوں کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے خاندانوں کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ منسلک رہتے ہیں ہمارے رفیق کے دنیا سے چلے جانے پر جمیل اطہر صاحب کے لکھے ہوئے خوبصورت الفاظ مجھے آج بھی ازبر ہیں اپنے کالم ” رفیق غوری۔۔۔چند یادیں “میں لکھتے ہیں
” میری خواہش تھی کہ رفیق غوری کے متعلق سب سے پہلے میں قلم اٹھاﺅں لیکن وہ میرے اتنے قریب تھے اور انکی زندگی کے اتنے گوشے تھے جنہیں احاطہ تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اس بنا پر لکھنے میں تاخیر ہوتی چلی گئی بقول شاعر
اس ایک چہرے میں آباد تھے کئی چہرے
اس ایک شخص میں کس کس کو دیکھتا تھا میں “
محترم جمیل اطہر قاضی صاحب اصولوں کے پکے ،دھن کے سچے، جدوجہد ،نیک نیتی اور کامیابی و کامرانی کی جیتی جاگتی تصویر ہیں ان کے والد صاحب نے انہیں ہمیشہ آنے والے مشکل وقت کے لئے تیار کیا اور ان کی تربیت خاص کے ساتھ ساتھ ایسی روشن راہ دکھائی جس نے ان کی روح کو ہی نہیں مستقبل کو بھی روشن اور منور کر دیا جمیل اطہر صاحب نے چودہ سال کی عمر میں ”دیار مجدد میں چند روز“ کے عنوان سے پہلا مضمون تحریر کیا جو 1955 ءمیںروزنامہ غریب میں شائع ہوا جو دور قدیم کا لائل پور اور موجودہ دور کے فیصل آباد سے شائع ہوا کرتا تھا اس کے بعد محترم جمیل اطہر روزنامہ زمیندار لاہور کے نامہ نگار بھی بنے اور روزنامہ آفاق لائل پور سے ملازمت کا آغاز کیا جہاں ان کی تنخواہ ایک سوبیس روپے ماہانہ سے شروع ہوئی اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایک سو پچھتر اور دو سو روپے ماہانہ تک جا پہنچی
1959 ءمیں ہفت روزہ وفاق کا اجراءکیا جو لاہور، راولپنڈی، سرگودھا اور رحیم یار خان سے شائع ہونے لگابعدازاں وفاق سے علیحدگی اختیار کر لی اور روزنامہ نوائے وقت میں حمید نظامی مرحوم اور محترم مجید نظامی مرحوم کی زیر ادارت کام کیا خوش گفتار، خوش اطوار ، خوش فہم اور کارآمد صحبت نے ان کی ذہانت اور فراست کو چار چاند لگا دیئے جن کے نتیجے میں 1974 ءمیں اپنا اخبار تجارت نکالا پھر روزنامہ جرات، اخبار خواتین میگزین اور انگریزی اخبار دی بزنس کا اجراءبھی کیا جن کی اشاعت کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے سی پی این ای کے سیکرٹری جنرل اور پریزیڈنٹ اور اے پی این ایس کے دس بار سینئر وائس پریزیڈنٹ بھی منتخب ہوئے ان کی پرخلوص اور صاف دل شخصیت ،مقناطیسی شخصیت سے متعارف ہوئے ایک عرصہ ہو چکا ہے کئی دنوں سے جی چاہ رہا تھا کہ محترم جمیل اطہر صاحب کی زندگی کی جدوجہد اور کامیابی و کامرانی کے چند خوبصورت گوشوں کو قرطاس پر اتارا جائے ابھی یہ کالم سخت نامکمل ہے اور دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے بقیہ لکھ کر پھر کسی دن روح تازہ اور سرشار کریں گے
وما علینا الالبلاغ