13نابالغ بچیوں کی ہیرامنڈی لاہور میں موجودگی

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
پاکستان کے ہر بڑے قدیم شہر میں ایک ہیرا منڈی ضرور موجود ہے۔ عرفِ عام میں اسے ”بازارِ حسن“ بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ لاہور کے باسی اسے ”شاہی محلہ“ کے نام سے جانتے ہیں۔ لاہور کی ہیرامنڈی، بازارحسن یا شاہی محلہ، شہر کے وسط میں واقع ہے۔ مغربی ممالک میں ایسے علاقے کو ”ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ“ کہا جاتا ہے۔ دہائیوں قبل لاہور کی ہیرا منڈی میں رقص و سرور کی محفلیں سجتی تھیں۔ یہ کبھی تہذیب و تمدن کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ اس میں تبدیلیاں آتی گئیںاور یہ علاقہ اپنی روایات سے ہٹ کر جسم فروشی کے لیے جانا جانے لگا۔ مورخین کے مطابق اس علاقے کی تاریخ 450سال پرانی ہے۔
لاہور کی ہیرا منڈی کو اس کا موجودہ نام قریباً 250سال پہلے ملا۔ یہ نام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دیوان ہیرا سنگھ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور اُس کی سلطنت کا مرکز ی شہر تھا۔ تب ہیرامنڈی کا پورا ایریا شاہی محلہ کہلا تا تھا۔ جس میں مشہور حیدری گلی، ٹبی گلی اور نادلئی چوک شامل تھے۔ یہ بھی واضح رہے کہ شاہی دور میں شاہی خاندان کی رہائش گاہ کے اردگرد کا وہ علاقہ، جہاں اُن کے نوکر، دیگر ملازمین اور سیکورٹی اہلکار رہتے تھے، شاہی محلہ کہلاتا تھا۔
شاہی محلہ میں موجود بہت سے کوٹھے مغل دور حکومت میں قائم ہوئے۔ تھیٹر کے لیے کام کرنے والے ایک ڈرامہ ڈائریکٹر پروفیسر تریپوراوی شرما بتاتے ہیں کہ مغل دور میں اس علاقے کے مکین امیر لوگ اور اُن کے اہل خانہ تھے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ خوشی کے موقعوں پر اُن کے پروگرام شاہی محلات میں ہوتے تھے۔ آج کل لفظ ”کوٹھا“ کی جس طرح تشریح کی جاتی ہے وہ درست نہیں ہے۔ ایک وقت تھا جب ”کوٹھا“ آرٹ کا مرکز تھا۔ جہاں صرف گانا، موسیقی اور رقص ہوتا تھا۔ کوٹھوں سے منسلک خواتین اپنے آپ کو فن کارہ یا اداکارہ کہتی تھیں۔یہاں اچھی تحریریں لکھی جاتی تھیں اور شاعری ہوتی تھی۔ جبکہ بہت اعلیٰ درجے کا مکالمہ ہوا کرتا تھا۔ لوگ گفتگو کا ہنر جاننے کے لیے بھی یہاں آتے تھے۔ پروفیسر صاحب کا مزید کہنا ہے کہ یہاں بہت اچھے مکالمے ہوا کرتے تھے۔ لوگ یہاں آ کر بہت کچھ سیکھتے تھے۔ معاشرے میں بات چیت اور استدلال کیسے کیا جائے؟ انہیں یہاں آ کر پتہ چلتا تھا۔
حال ہی میں مشہور بھارتی فلم ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی نے ”ہیرا منڈی“ کے موضوع پر ایک طویل ڈرامہ سیریز بنائی تو لاہور کی قدیم ہیرامنڈی کا ایک بار پھر دنیا میں چرچا ہونے لگا۔ دیش بدیش سے خبریں آنے لگیں۔ خصوصاً یوٹیوب، انسٹا گرام اور فیس بک پر کسی نے سنجے لیلا کو تنقید کا نشانہ بنایا تو کوئی ڈرامہ سیریز کی کاست کو آڑے ہاتھوں لیتا نظر آیا۔ جبکہ کسی کو یہ کہتے سنا گیا کہ سنجے لیلا نے1920ءکی یاد تازہ کر دی۔ جس ہیرامنڈی کو عکسبند کیا گیا اُس کا تعلق لاہور کی فورٹ روڈ کے قریب واقع ہیرا منڈی سے تھا۔ اس ”ہیرا منڈی“ کی اپنی تاریخ اور ایک ہسٹری ہے۔ اس سیریز میں ہیرامنڈی لاہور سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بہت سی داستانیں، عادات و اطوار اور نفسیات بیان کی گئی ہیں۔ بالا خانوں کے بہت سے دلچسپ قصے بھی سیریز میں شامل ہیں۔ ہیرا منڈی میں واقع مکانوں کی زبوں حالی بھی اس سیریز میں بیان کی گئی ہے۔ ایک تبصرہ نگار نے ڈرامہ سیریز کی ہیروئن آدتی راﺅ کی مستانی چال کو تین ہزار سال قبل مردوں کو لبھانے والی ”گاجاکامنی“ چال قرار دیا۔
ہیرامنڈی لاہور 1999ءسے بند پڑی ہے۔ یہ جنرل مشرف کے دورِ حکومت کی بات ہے جب ملتان سے ایک 16سالہ لڑکی اغواءہوئی اور لاہور کی ہیرامنڈی میں بیچ دی گئی۔ لڑکی کے والدین نے اخبارات کے ذریعے جنرل مشرف سے اپیل کی کہ اُن کی بچی کو برآمد کیا جائے۔ ملتان میں بچی کے اغواءکا پرچہ درج تھا لیکن پولیس تفتیش میں روایتی سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔بہرحال جنرل مشرف کے نوٹس کے بعد وسیع پیمانے پر تحقیق شروع ہوئی اور مغویہ بچی کو لاہور کی ہیرامنڈی سے برآمد کر لیا گیا۔ جس کے بعد شاہی محلہ میں کریک ڈاﺅن ہوا۔ مزید پکڑ دھکڑ ہوئی۔ چھاپے پڑنے لگے جس کے بعد جسم فروش خواتین اپنے مکان اور محلہ چھوڑ کر لاہور کے پوش علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہو گئیں۔ علامہ اقبال ٹاﺅن، گلشن راوی اور گلبرگ اُن کی آماجگاہیں بن گئیں۔ جہاں کثرت سے جسم فروشی کا ”دھندہ “ ہونے لگا ، جو ، اب بھی جاری ہے۔ جس میں کسی بھی روز تعطل نہیں آیا۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ہیرامنڈی لاہور میں کیا اب بھی طوائفوں کا قیام ہے یا وہ سب ترکِ سکونت کر گئی ہیں۔ اگر یہاں اب بھی طوائفوں کا بسیرا ہے تو اُن کی تعداد کتنی ہے۔ کیا وہ اب بھی جسم فروشی کرتی ہیں یا یہ دھندہ چھوڑ چکی ہیں۔ اُن کے بچوں کا کسی کو علم نہیں۔ کتنے ہیں، کیا کرتے ہیں؟ بچوں کے مستقبل کے حوالے سے بھی کوئی معلومات نہیں کہ فیوچر میں اُن کا کیا ہو گا؟ اُن کے کاروبار کے بارے میں بھی کسی کو کوئی جانکاری نہیں کہ ان مکینوں کی روزی روٹی کیسے چل رہی ہے؟
لاہور ہیرا منڈی کے سب ریستوران، ہوٹلز اور چائے خانے بند ہو چکے ہیں۔ اب وہاں تین دہائیوں پہلے والی گہماگہمی اور رونقیں نہیں۔ بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب ہیرامنڈی لاہور میں جانے والے یوٹیوبرز اور ورکنگ جرنلسٹس بھی اب تک نہیں ڈھونڈ پائے۔
تاہم میں نے کوشش کی ہے کہ اس کالم کی وساطت سے وہ تمام معلومات آپ تک پہنچاﺅں جو ڈرامہ سیریز ”ہیرامنڈی“ دیکھ کر پیدا ہوئے، جس سے جڑے کتنے ہی سوال ذہنوں میں ابہام پیدا کر رہے ہیں۔ چلیں، آئیں چلتے ہیں ہیرامنڈی لاہور میں۔ جہاں کتنی ہی طوائفیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اب بھی مقیم ہیں۔ کم وسائل کی وجہ سے یہ کسی پوش علاقے میں منتقل نہیں ہو سکیں۔ ان کی مجموعی تعداد 210ہے۔ ان میں 135مرد اور 35خواتین ہیں۔ 15نابالغ لڑکے اور 13نابالغ لڑکیاں بھی ان میں شامل ہیں۔ سرکاری طور پر اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ ہیرامنڈی لاہور میں اب بھی جسم فروش عورتیں موجود ہیں۔ جس کا ثبوت تھانہ ٹبی میں جسم فروشی کے الزام میں درج اُن آٹھ مقدمات سے ملتا ہے جو مقامی پولیس نے یہاں مقیم جسم فروش عورتوں کے خلاف درج کئے ہیں۔ لیکن اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ ہیرامنڈی کی 35طوائفوں کے گھروں میں موجود 13نابالغ بچیوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ کیا یہ بھی اپنی ماﺅں کی طرح اُن کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جسم فروشی ہی کریں گے یا ریاست ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی عملی اور ٹھوس قدم بھی اٹھائے گی؟
یہ بڑا سوال ہے آج تک کسی سرکاری ادارے نے ان بچےوں کے اچھے مستقبل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، ہیومن رائٹس کا ادارہ، اور وویمن ڈویلپمنٹ پنجاب نے بھی تمام اختیار ہونے کے باوجود خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کبھی کسی حکومت نے ان بچیوں کے لیے کچھ نہیں کیا، نہ انہیں کبھی معاشرے میں عزت و تکریم دینے کی کوشش کی گئی۔ حکومتی اداروں نے ان کے لیے کیوں کچھ نہیں کیا؟ سوال تو بنتا ہے۔ یہ سوال ہم آنے والے دنوں میں بھی اسی تواتر کے ساتھ اٹھاتے رہیں گے۔
پنجاب، پاکستان کا اہم صوبہ ہے۔ آئین پاکستان بھی نابالغ بچیوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتا ہے۔ تعلیم، اچھی صحت، ماحول، اور باعزت زندگی دینا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں۔ خاتون ہونے کے ناطے اُن پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان بچیوں کو ”بازار حسن“ کی دلدل سے نکالنے کے لیے اپنا فعال کردار ادا کریں۔ کسی طرح بھی شاہی محلہ کے مکینوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔ ریاست ان کے لیے کچھ کر پائے تو بہت اچھا ہو گا۔
ہمارے یوٹیوبرز اور نیشنل میڈیا سے تعلق رکھنے والے ورکنگ جرنلسٹ کو بھی ہیرامنڈی لاہور کا احوال، یہاں کے مکینوں کی زندگیوں کے بارے حقائق کو منظرِ عام پر لانے چاہئیے۔ تاکہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ سکے۔ ”بازار حسن“ پر پاکستان میں ایک فلم بھی بنائی جا چکی ہے۔ جس کا نام بھی ”بازار حسن“ تھا۔ فلم کے ڈائریکٹر محمد جاوید فاضل تھے۔ جبکہ محمد سرور بھٹی نے فلم کو پروڈیوس کیا۔ تاہم باکس آفس پر یہ ایک فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ اس موضوع پر بہت سی کتابیں بھی لکھی گئیں۔ ”پارلیمنٹ سے بازار حسن تک“ شفقت رسول کی لکھی ہوئی کتاب ہے جبکہ آغا شورش کاشمیری نے بھی ایک کتاب لکھی جو ”اُس بازار میں“ کے نام سے طوائفوں کی زندگی کا احاطہ کئے ہوئے تھی۔ بھارتی مصنف منشی پریم چند بھی ”بازار حسن“ کے موضوع پر کتاب لکھ چکے ہیں۔ تاہم بازار حسن پر ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ یہاں کے مکینوں کی زندگیوں کو بہتر اور معاشرتی رسم و روایات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاست کے لیے بھی یہ بڑا چیلنج ہے۔

ای پیپر دی نیشن