عام ہندو ووٹر بیدار ہو گیا

Jun 08, 2024

علی انوار

2024 کےانتخابی نتائج مودی کیلئے اتنے اچھے ثابت نہیں ہوئے کیونکہ مودی نے ہندو انتہا پسندی کو ہوا دے کر انتخاب جیتنے کی امید لگا رکھی تھی لیکن دیکھا جائے تو بھارت کے یہ الیکشن ہندو ووٹرز کے بڑے حصے کے بیدار ہونے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ مودی چونکہ ہندو ووٹرز پر ہی انحصار کر رہے رھے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ شاید ہندو ووٹرز سو فیصد ان کو ہی وو ٹ ڈالے گا لیکن ان انتخابات میں ہندو ووٹرز نے خود کو دیوتا قرار دینے والے سیاسی لیڈر کا چہرہ بگاڑ دیا ہے۔اب تو بھارت کے اندر سے مودی کیخلاف آوازیں آٹھ رہی ہیں جن کیخلاف کوئی ڈر سے بول نہیں سکتا تھا۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے انتخابات کے نتائج سے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ وزیر اعظم عہدہ پر بیٹھے کسی دیگر شخص نے ایسی گھٹیا اور تخریب کاری والی زبان کا استعمال نہیں کیا جیسا کہ مودی نے کی ہے۔
10 سال کرسی پر بیٹھنے کے بعد مودی کی تقریر میں مسلمانوں کیخلاف زہر بھرا ہوا تھا اور انکی انتخابی تقاریر کا جائزہ لیں تو مودی اپنی سیاسی کامیابی بتانے کی بجائے ان کی تقاریر میں مچھلی، مغل، مسلمان، مسلم لیگ، منگل سوتر جیسے الفاظ کا چرچا زیادہ تھا۔کسی بھی باشعور بھارتی ووٹرز کو مودی کی اس زہر انگیزی سے نفرت ہو سکتی تھی اور انتخابی نتائج بتاتے ہیں کہ بہتوں کو مودی کہ تقاریر اور حرکتوں سےگھِن آہی گئی۔
مودی کے ساتھ سب سے برا تو رام کے نام پر ہوا۔ مودی نے ہندو ووٹرز کو لبھانے کیلئے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا بھی افتتاح کیا لیکن ہندو ووٹر پھر بھی راضی نہ ہوا اور مودی کو ایودھیا میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اکلیش یادیو نے تو الزامات لگایا ہے کہ عام اور غریب ہندو ووٹرز اس بات سے ناراض تھا کہ انتہا پسندوں کو خوش کرنے کیلئے ایودھیا کے غریب ہندﺅں کی زمین پر سرکاری قبضہ کر کے رام مندر بنایا گیا جس کا غصہ ہندو ووٹرز نے الیکشن میں نکال دیا۔
اکلیش یادیو کے مطابق بیدار ہندو نے دیکھا کہ ایودھیا کے چھوٹے دکانداروں اور تمام مندروں کے پجاریوں کے گھر فاقہ پڑ رہا تھا اور بڑے بڑے بی جے پی لیڈران کوڑیوں کی زمین خرید کر رام مندر ٹرسٹ کو کروڑوں میں فروخت کر مال بنا رہے ہیں، رام نام پر ہو رہی اس لوٹ سے غمگین بیدار ہندو نے اپنا غصہ نکال دیا-ان انتخابات کے بعد بھارت میں کہا جا رہا ہے کہ اس قدر گھٹن تھی کہ کہیں سے ہوا کے لئے کوئی سراخ نظر نہیں آتا تا تھا لیکن ان انتخابی نتائج نے نہ صرف وہ سراخ دکھایا ہے بلکہ سانس لینے کی امید بھی قائم کی ہے کہ مودی ناقابل شکست نہیں ہے۔مودی کو للکارنے میں اگر کسی بھارتی لیڈر نے کردار ادا کیا ہے تو واہ راہل گاندھی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ راہل گاندھی واحد رہنما ہیں جنہوں آر ایس ایس اور وزیر اعظم مودی کے خلاف کھل کر جنگ لڑی ہے تو اس میں کچھ غلط نہیں ہوگا۔
مودی نے اپنے ووٹروں سے مسلم مخالف مینڈیٹ مانگا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ڈرایا تھا کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس ان کی جائیداد اور دیگر وسائل چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ عام ہندوستان کو نفرت کی یہ سیاست اب قبول نہیں ہے۔
ہندوستان جیسے کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک میں کسی ایک مذہب کے پیروکار کو الگ تھلگ کرنے اور ان کے خلاف اکثریت ہندو انتہا پسندی کو متحد کرنے کا خیال اکثریتی ہندوتوا کے 10 سالہ دور حکومت کے بعد بھی ہندوستانی عوام کوقبول نہیں ہے، یہ اس الیکشن کے نتائج نے واضح کر دیا ہے۔مودی نے اپنی انتخابی مہم کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم میں بدل دیا اور کہا کہ اپوزیشن ہندو مخالف ہے۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی یہ نفرت کی سیاست اب زیادہ دیر نہیں چلنے والی۔مودی خود کو دیوتا اور شہنشاہ کے طور پر پیش کر رہے تھے اور بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے لیکن بھارت کی عوام نے واضح طور پرفیصلہ سنایا ہے کہ انہیں وزیر اعظم کے طور پر وہ کوئی شہنشاہ نہیں چاہیے۔ پچھلے 10 سالوں میں مودی نے خود کو شہنشاہ کے طور پر ہی پیش کیا ہے۔ عوام کو یہ باور کرانے کی کوششیں کی گئیں کہ مودی دراصل مغلوں کے ظلم کا بدلہ لے رہے ہیں اور ہندوستان میں پہلی بار ہندوو¿ں کا راج قائم ہو رہا ہے۔ یہ انتخابی مہم پوری طرح سے اسی ہندوتوا اپیل کے ساتھ چلائی گئی تھی۔ مودی کی بی جے پی کو واضح اکثریت نہ دے کر عوام نےان کی یہ اپیل رد کر دی ہے۔مودی خود کو جمہوری رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن انتخابات سے قبل حکومتی ایجنسیوں نے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے اکاو¿نٹ سے زبردستی پیسے نکال لیے اور بعد میں اسکے بینک کھاتےسیل کر دیے گئے۔ جھارکھنڈ اور دہلی کے وزرائے اعلیٰ کو گرفتار کیا گیا اور اپوزیشن جماعتوں کے کئی لیڈروں کے یہاں چھاپے مارے گئے اور ان کے خلاف مقدمے درج کیے گئےجو ظاہر کرتے ہیں کہ مودی بوکھلائے ہوئے تھے اور طاقت کے نشے میں ہر ایک کو روندنے پر تلے ہوئے تھے۔دوسری جانب مودی بار بار دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا فخریہ ذکر کرتے رہے لیکن زمینی حقائق اسکے برعکس تھے۔ عام ہندو نوجوانوں کا شکوہ ہے مودی حکومت نے انہیں ہندو راشٹر کا خواب دکھا کر ان کا حال تباہ کر دیا ہے۔ کسی قسم کا کوئی کام، کوئی نوکری نہیں۔ نوجوانوں نے دیکھا کہ مودی لفاظی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں الجھا کر اپنی نااہلی چھپا رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اس حکومت کو ہٹانے کی مہم چلائی اور عام ہندوستانی نے بی جے پی کے 400 سیٹوں کے منصوبے کو خاک میں ملا کر مودی کے تابوت میں پہلی کیل ضرور ٹھونک دی ہے۔

مزیدخبریں