سیاستدانوں نے حالات اس نہج پر پہنچادیئے ہیں کہ اکتوبر 1999ءکی یاد آگئی ہے۔ اس وقت بھی ملک کو ڈیفالٹر او ر دہشت گرد قرار دیئے جانے کی باتیں تھیں اور اب بھی کچھ سیاستدان ملک میں دہشت گردی کرنے والوں کا ساتھ دیتے نظر آرہے ہیں اور ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جانے کے بجائے انکی کوشش ہے کہ ملک میں سیاسی انتشار اور معاشی دیوالیہ پن چلتا رہے اور ان کی سیاست کو دوام ملے۔ یہ وہ سیاسی لوگ ہیں جو پہلے تو اداروں کے ساتھ بہتر تعلقات رکھ کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں اور دن رات انکی تعریفیں کرتے ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار سے الگ ہوتے ہیں تو اداروں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ میرے قائد ایئرمارشل اصغر خان نے کبھی بھی اداروں کا سہارا لیکر سیاست نہیں کی تھی اسی لئے وہ اقتدار کی پیشکشوں کو ٹھکراکر عوام کی سیاست کرتے رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان پر کوئی بھی اداروں سے میل جول رکھ کر سیاست کرنے کا الزام نہیں لگا سکتا۔ اسی لئے وہ اقتدار تک بھی نہیں پہنچے لیکن ساری زندگی اصولی سیاست کی۔
موجودہ حالات کو سیاسی عدم استحکام سے ہٹاکر سیاسی و معاشی استحکام تک لے جانے کی ذمہ داری تو سیاستدانوں کی ہے اور بات چیت بھی سیاستدانوں نے ہی آپس میں کرکے حالات کو بہتر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے حلف اٹھاتے ہی پہلی تقریر میں تمام سیاسی قوتوں کو بات چیت کے ذریعے تمام مسائل حل کرنے کی پیشکش کی اور یہ سلسلہ جاری ہے کہ جب روزانہ کی بنیاد پر وفاقی وزراءاور ن لیگ کے قائد میاں نوازشریف بھی کئی بار بات چیت کی پیشکش کرچکے ہیں لیکن ہٹ دھرمی‘ ضد اور انا کی سیاست سے صرف اور صرف ملک کو نقصان ہورہا ہے۔ اب تو حالات اس نہج پر آچکے ہیں کہ 1999ءکی یاد تازہ ہوگئی ہے جب سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی اور نااہلی کی وجہ سے مارشل لاءلگا اور سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشر ف کو 3سال تک وردی میں رہ کر نہ صرف حکومت کرنے کی اجازت دی بلکہ آئین میں ضروری ترمیم کا اختیار بھی دیا۔
اب بھی اگر ناگزیرہوگیا کہ ملک کو بچانے کے لئے ملکی دفاع و سلامتی کے ذمہ داروں کو سامنے آنا پڑا تو کیا سپریم کورٹ ملکی مفاد اور بہتری کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کرسکے گی؟ میرے خیال میں تو سب سے پہلے پاکستان کی سوچ رکھ کر صرف اور صرف ملک کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کریں۔نگران حکومت جب قائم ہوئی تو سٹاک مارکیٹ 41,000انڈیکس پر تھی اور ڈالر 350کی حد تک جاچکا تھا۔ نگران حکومت نے تاریخ میں سب سے بہتر نگران حکومت ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور ڈالر کی قدر میں نمایاں کمی کرنے میں کامیابی حاصل کی اور ساتھ ہی ساتھ سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی آئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ اب سٹاک مارکیٹ 76,000 انڈیکس کی حد تک جاپہنچی ہے۔ ایس آئی ایف سی ایپکس کمیٹی کے قیام کے بعد سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ برادر اسلامی ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لئے بہترین مکینزم کا اجراءکیا گیا ہے جس میں گزرتے وقت کے ساتھ بہتری لائی جارہی ہے۔ ان اقدامات سے یقینی طور پر ملک کو امداد اور قرض کی ضرورت نہیں رہے گی اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں انقلابی اضافہ ہوگا۔
ایس آئی ایف سی ایپکس کمیٹی کے اقدامات سے ملک میں جو معاشی بہترین آئی ہے اور اب اشیاءضرورت کی قیمتوں میں بھی کمی دیکھی جارہی ہے۔ اب حکومت کو مصنوعی مہنگائی کے خاتمے کے لئے بھی موثر مکینزم قائم کرکے ذخیرہ اندوزوں‘ ملاوٹ کرنے والوں اور مصنوعی مہنگائی کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائیاں کرنی ہوں گی تاکہ عام آدمی کو تمام ممکنہ ریلیف مل سکے۔ اس سلسلے میں تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تمام بھرپور کوششیں کرکے عوام کو ریلیف دیں۔
گزشتہ 9-10ماہ میں جو معاشی استحکام قائم ہوا ہے اور حالات مزید بہتری کی جانب جارہے ہیں۔ ایسے میں تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ معاشی استحکام میں مزید اضافے کے لئے اپنا مثبت سیاسی و آئینی کردار ادا کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ روایت بن چکی ہے کہ جب تک اقتدار میں ہوتے ہیں اس وقت تک جمہوریت اور نظام کے سب سے بڑے حامی ہوتے ہیں لیکن اقتدار سے ہٹتے ہی نظام اور اداروں کو برا بھلا کہہ کر خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب بھی اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے بجائے اداروں کو برا بھلا کہہ کر سیاست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حب الوطنی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ اپنے ذاتی اقتدار و لالچ کو بالائے طاق رکھ کر ملکی استحکام و سربلندی کے لئے سیاسی استحکام پیدا کیا جائے اور سیاستدان آپس میں بات چیت کرکے تمام مسائل حل کریں۔معاشی عدم استحکام کا سبب بننے والے سیاستدانوں کا طرز عمل ملک دشمنی کے مترادف ہے۔
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ آج کل زیر بحث ہے اور یہ یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ ملک دولخت ہونے کے ذمہ دار صرف یحییٰ خان تھے اور اس وقت کے سیاستدان معصوم تھے۔ مکمل خبر یہی ہے جو آج تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے بیان دیا ہے۔ میں ان کے اس بیان پر انہیں خراج تحسین پیش کروں گا کہ جنہوں نے اس معاملے پر مکمل حقائق قوم کے سامنے رکھ دیئے ہیں اور سقوط ڈھاکہ کا زیادہ ذمہ دار سیاستدانوں کو قرار دیا ہے۔
1970ءکے الیکشن میں اکثریت کو اقتدار نہ دےکر ملک کو دولخت کیا گیا۔ اگر سیاستدان اکثریت حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار دینے کے آئینی و قانون موقف کو اختیار کرتے تو یحییٰ خان کیسے پارلیمنٹ کا اجلاس نہ بلاتے؟ سقوط ڈھاکہ میں جہاں یحییٰ خان کا قصور تھا وہیں سیاستدان بھی پوری طرح شریک جرم تھے۔ 1970ءکے الیکشن کے بعد ایئر مارشل اصغر خان مرحوم نے ڈھاکہ کا دورہ کیا اور شیخ مجیب سے ملاقات کرکے کراچی ایئرپورٹ آئے تو انہوں نے کہا کہ اقتدار اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت عوامی لیگ کو دینا چاہئے ورنہ ملک ٹوٹ سکتا ہے۔ ان کے اس بیان پر انہیں بنگالیوں کا ایجنٹ قرار دیا گیا۔
یحییٰ خان ڈھاکہ میں شیخ مجیب سے ملاقات کرکے جب واپس آئے تو سیاستدانوں سے ملاقاتوں کے بعد ”ادھر تم‘ ادھر ہم“ کا نعرہ سامنے آیا جس سے ملک کو دولخت کرنے کے اسباب پیدا ہوئے۔ یحیٰی خان کو شیخ مجیب نے بتایا تھا کہ اقتدار میں آکر میں ایئرمارشل اصغر خان کو ملک کا صدر بناو¿ں گا۔ اسی لئے انہوں نے خود صدر برقرار رہنے کے لئے الیکشن 1970ءمیں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو اقتدار دینے کے بجائے سیاستدانوں سے ملکر ایسے حالات پیدا کئے کہ ملک دولخت ہوگیا۔اب کوئی بھی اگر صرف حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار صرف یحیٰی خان تھا تو بھی یہ بات حقائق کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
درحقیقت سیاستدانوں کے غیر جمہوری‘ غیر آئینی طرز عمل اور اقتدار کی ہوس نے ملک کو دولخت کیا اور اس بارے میں علی محمد خان کا بیان حقائق کی عکاسی کرتا ہے۔ سیاستدانوں نے تو اس وقت بھی مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی جب بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کیا گیا۔ اس بات کا اعتراف اس بینچ میں شامل جج‘ سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک بیان میں کیا تھا کہ ہم نے بھٹو صاحب کی پھانسی کی سزا جنرل ضیاءالحق کے دباو¿ پر برقرار رکھی تھی۔ اب عدلیہ نے کئی دہائیوں بعد بھٹو صاحب کے فیصلے کو غلط کرکے اعتراف کیا کہ عدلیہ بھی کئی غلط فیصلے کرتی رہی ہے۔ غلط فیصلے روکنا بھی سیاستدانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے لیکن بہت افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ بطور مجموعی سیاستدانوں کا اس سلسلے میں ماضی اچھا نہیں رہا۔ اسی لئے ملک موجودہ حالات تک پہنچا ہے لیکن اب بھی سیاستدان ہوش کرتے نظر نہیں آتے بلکہ اپنی تمام تر نااہلیوں کا ملبہ اداروں پر ڈال کر خود کو فرشتہ ثابت کرنے کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
حمودالرحمان کمیشن رپورٹ اور مزید حقائق
Jun 08, 2024