بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے جہاں پر انتخابات کرانے کے لیے کم و بیش دو ماہ درکار ہوتے ہیں-انتخابی عمل سات مراحل سے گزرتا ہے- بھارت کے موجودہ انتخابات اپریل 2024ءکے وسط میں شروع ہوئے تھے اور جون کے پہلے ہفتے میں انتخابی نتائج کا اعلان کیا گیا- ان انتخابات میں 90 کروڑ ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کا حق تھا - رائے شماری کا عمل الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے مکمل کیا گیا-بھارت کی سب سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم کیا اور کسی نے دھاندلی کا کوئی الزام نہیں لگایا-انتخابی عمل کے دوران کسی ریاستی ادارے نے انتخابات میں مداخلت نہیں کی- بھارت کے الیکشن کمیشن نے لوک سبھا کی 534 نشستوں کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے- سرکاری اعلان کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی نے 240 نشستیں، انڈین نیشنل کانگریس نے 99، سماج وادی پارٹی نے 37، آل انڈیا ترنامول کانگریس نے29، ڈراودا مونیترا کازگم نے 22، جنتا دل یونائیٹڈ نے 12، راشٹریہ جنتا دل نے 4، وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے 4، عام آدمی پارٹی 3 اور دیگر نے 93 نشستیں حاصل کی ہیں- بی جے پی کو مہاراشٹرا اور اتر پردیش میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اس کے کئی اہم لیڈر انتخاب ہار گئے- بھارتیہ جنتا پارٹی کے مرکزی لیڈر نریندر مودی نے 2024ءکے انتخابات کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی ان انتخابات میں 400 سے زیادہ نشستیں حاصل کر لے گی اور دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد آئین میں اپنے انتخابی منشور کیمطابق ترامیم کرے گی-گویا پورے بھارت پر آر ایس ایس ہندوتوا کا فلسفہ نافذ کر دیا جائےگا-انتخابی نتائج کے مطابق نریندر مودی کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا-ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے-بی جے پی نے 2014ءکے انتخابات میں 282 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ 2019ءکے انتخابات میں 303 نشستیں حاصل کیں اور 2024ءکے انتخابات میں اس نے 240 نشستیں حاصل کی ہیں- بھارتیہ جنتا پارٹی اس انتخابی نشست پر بھی ہار گئی ہے جہاں پر اس نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرایا۔گویا بھارتی عوام نے نفرت اور تعصب کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے- کانگریس اور اسکی اتحادی جماعتوں نے 238 نشستیں حاصل کی ہیں-مودی کو تیسری بار وزیراعظم بننے کے لیے بہار اور آندھرا پردیش کی ان سیاسی جماعتوں کی حمایت درکار ہوگی جو مسلم نواز ہیں اور ہندوتوا کے خلاف ہیں اور چاہتی ہیں کہ ہندوستان میں سیکولرازم کا فلسفہ جاری و ساری رہے- مودی کی اتحادی جماعتوں نے لوک سبھا کے سپیکر اور ہوم منسٹری کے منصبوں کا مطالبہ کر دیا ہے- ان سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل ہونے کے بعد مودی کو 291 اراکین کی حمایت حاصل ہو جائے گی- نہرو کے بعد مودی دوسرے بھارتی لیڈر ہوں گے جو تیسری بار وزارت عظمی کا منصب سنبھالیں گے- مودی سرکار نے انتخابی مہم کے دوران عام آدمی پارٹی کے مقبول رہنما کجریوال کو کرپشن کے مبینہ الزامات کے تحت گرفتار کر لیا البتہ عدلیہ نے ان کو رہا کرکے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے دی- جب انتخابی مہم ختم ہو گئی تو کجری وال نے اپنے آپ کو جیل حکام کے سپرد کر دیا-
مودی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کر کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا تھا-انہوں نے انتخابی مہم کے دوران پاکستان کےخلاف بھی پروپیگنڈا کیا تھا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکیں-کانگرس کے مرکزی لیڈر راہول گاندھی نے بریلی اتر پردیش اور دیانند کیرالا سے دونوں نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی ہے-اطلاعات کے مطابق وہ جو نشست خالی کریں گے ان پر ان کی ہمشیرہ پریانکا گاندھی انتخاب لڑیں گی-راہول گاندھی نے ہندوستان کے غریب عوام کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ہندوستان کی جمہوریت اور آئین کو بچا لیا ہے-مودی اب من مانی نہیں کر سکیں گے اور اس کے غیر جمہوری متعصب عزائم کے سامنے بھاری اپوزیشن رکاوٹ بنتی رہے گی-جب سے مودی بھارت کے وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیں بھارت کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا ہی شکار رہے ہیں-وہ پاکستان کیخلاف کھلم کھلا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں- انکی مسلمان دشمنی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے- سینئر سفارت کاروں کا خیال ہے کہ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد مودی پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں-بھارت چند سالوں کے اندر دنیا کی تیسری بڑی معاشی قوت بننے جا رہا ہے لہٰذا ان حالات میں اسے اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات خوشگوار بنانے کی ضرورت ہے-چونکہ وہ خواہش کے مطابق قومی لوک سبھا کی نشستیں حاصل نہیں کر سکے اور کانگرس اور اس کی اتحادی جماعتیں بھی لوک سبھا کے اندر نریندر مودی کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں-جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور استحکام کے لیے بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو نارمل بنانا ضروری ہو چکا ہے- میاں نواز شریف کے نریندر مودی کے ساتھ پرانے خوشگوار تعلقات ہیں اور انکی حکومت مرکز میں قائم ہے لہٰذاامید کی جاتی ہے کہ وہ پاک بھارت تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے- سینئر مبصرین کی جانب سے اس امکان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ جب نریندر مودی تیسری بار وزارت عظمی کا حلف اٹھائیں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اس میں شرکت کی دعوت دیں- جب مودی پہلی بار بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے میاں نواز شریف کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی تو میاں نواز شریف انکی دعوت پر حلف وفاداری کی تقریب میں شریک ہوئے تھے-پاکستان الیکشن کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کو بھارت کے الیکشن کمیشن سے سیکھنے کی ضرورت ہے-اگر ممکن ہو تو وہ بھارت کا دورہ کر کے بھارت کے پورے انتخابی عمل کو سمجھنے کی کوشش کریں تاکہ پاکستان میں بھی صاف اور شفاف انتخابات کی روایت کو قائم کیا جا سکے- اطمینان بخش بات یہ ہے کہ بھارت کے عوام نے نفرت اور تعصب کی سیاست کو مسترد کر دیا ہے-
بھارت میں نفرت کی سیاست ناکام
Jun 08, 2024