آج مَیں تحریک پاکستان کے نامور ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن ، شعلہ بیان مقرر ، سحر نگار ادیب، مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے قائد اور 1946ءمیں انتخابات کی مہم میں پنجاب میں مسلم لیگ کی شاندار کامیابی کے رُوح رواں ” انبالہ“ (بھارت کے موجودہ صوبہ ہریانہ کے شہر )کے سادات گھرانے کے ( اُن دِنوں ) نوجوانوں کے سر خیل سیّد محمد قاسم رضوی کا تذکرہ کر رہا ہُوں ۔
معزز قارئین !۔ 6 جون کو ، پاکستان اور بیرون پاکستان سیّد محمد قاسم رضوی کے عزیز و اکارب اور دوست احباب اُنکی 49 ویں برسی منائی ۔سیّد محمد قاسم رضوی کے تایا جی (تحریک پاکستان کے نامور (گولڈ میڈلسٹ) قائد) سیّد غلام بھیک نیرنگ ،علاّمہ اقبال کے رفیق ، ادیب ، شاعر اور نامور وکیل تھے ۔ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ کی عدیم المثال کامیابی کے بعد جب، قائداعظم محمد علی جناح کو مسلم لیگ اسمبلی کا پارٹی لیڈر منتخب کِیا گیا تو سیّد غلام بھیک نیرنگ ڈپٹی لیڈر منتخب ہُوئے۔ اُنہوں نے 1952ءمیں وفات پائی ۔ میانی صاحب لاہور میں آپ کا مزار ہے ۔ سیّد محمد قاسم رضوی کا انتقال 6 جون 1975ءکو ہُوا اور وہ بھی سیّد غلام بھیک نیرنگ کے سرہانے مدفون ہیں ۔
” جمیل اطہر قاضی! “
معزز قارئین !۔ مَیں اپنے کئی کالموں میں نامور صحافی ، دانشور، کئی کتابوں کے مصنف روزنامہ ” وفاق “ لاہور ، سرگودھا اور رحیم یار خان کے سابق ایڈیٹر ، روزنامہ ”تجارت “ ۔روزنامہ ” جرات “ کئی ہفتہ وار و ماہوار رسائل و جرائد کے مالک و مدیر اور مختلف اوقات میں مالکان اخبارات کی تنظیم ” A.P.N.S“ اور مدیران اخبارات اور جرائد کی انجمن "C.P.N.E" کے عہدیدار کی حیثیت سے اپنے سینئر صحافی دوست برادرِ عزیز و محترم جمیل اطہر قاضی کا ذکر کرتا رہتا ہُوںکہ جن کے ماتحت مَیں نے 1962ء،1964ئ، 1967ءاور 1970ءمیں روزنامہ ”وفاق“ سرگودھا اور لاہور میں کام کِیااور اُن سے بہت کچھ سیکھااور ماشاءاللہ !۔ میری اب بھی جمیل صاحب سے دوستی اور بھائی چارا ہے اور اُن کے تینوں بیٹوں ، عرفان اطہر قاضی ، عمران اطہر قاضی اور ریحان اطہر قاضی سے تعلقِ خاطر لیکن، عرفان اطہر قاضی کی ”جرات اظہار“ سے مجھے بہت زیادہ توقعات ہیں ! ۔
”روزنامہ ”وفاق“ سے پہلے!“
مَیں نے 1956ءمیں میٹرک پاس کِیا اور اُردو میں پہلی نعت لکھی ۔ 1960ءمیں مسلک صحافت اختیار کِیا ، پھر کئی مقامی ہفتہ وار اخبارات کا معاون یا ایڈیٹر رہا۔ 1960ءمیں، لاہور کے قانون دان میاں محمد سلیم کا روزنامہ ”ہلالِ پاکستان“ سرگودھا سے بھی شائع ہُوا تو میرے دوست ملک علی محمد جمال اُس کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے اور مَیں نیوز ایڈیٹر جب ، ڈپٹی کمشنر چودھری محمد اسلم باجوہ نے جمال صاحب کو ، ضلع بدر کردِیا ، پھر مَیں ریذیڈنٹ ایڈیٹر ۔ سرگودھا چھوڑ کر مَیں راولپنڈی چلا گیا اور 1961ءکے اواخر تک جناب فاروق عثمانی (اب مرحوم) کے روزنامہ ” تاجر “ راولپنڈی کا نیوز ایڈیٹر اور پھر ایڈیٹر رہا۔
” کمشنر سرگودھا ڈویژن ! “
سیّد محمد قاسم رضوی 1967ءمیں سرگودھا ڈویژن کے کمشنر مقرر ہُوئے تو، روزنامہ ” وفاق “ کے مالکان مصطفی صادق (مرحوم) اور جمیل اطہر قاضی لاہور میں ہوتے اور مَیں سرگودھا میں روزنامہ ” وفاق“ کا "Resident Editor" ۔ 11 ستمبر کو، یوم قائداعظم پر سیّد محمد قاسم رضوی نے کمپنی باغ سرگودھا کے جلسہ عام میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کے دوسرے نامور قائدین اور کارکنان کی قومی خدمات پر ایک ایمان افروز تقریر کی۔ حاضرین نے پُر جوش نعرے لگاتے ہُوئے سارے کمپنی باغ کو ”باغ باغ “ کردِیا۔
”سیّد آفتاب احمد ! “
معزز قارئین !۔ متحدہ (پاک بھارت پنجاب) کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز ، سیّد نور احمد کے صاحبزادے میرے دوست ، سیّد آفتاب احمد اُن دِنوں سرگودھا میں انفارمیشن آفیسر تھے ۔ جنابِ کمشنر صاحب کی فرمائش پر وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور یہ بھی کہا کہ ” اپنے ساتھ اپنی دو تین غزلیں یا نظمیں بھی لے جائیں!“۔ ملاقات ہُوئی تو، جنابِ کمشنر نے مجھے شاباش دِی اور کہا کہ ” اثر چوہان !۔ اُن دِنوں مَیں ڈپٹی کمشنر فیصل آباد تھا، جب ایک نوجوان ”شورش پاکستانی“ نے میری تقریر کو، اِسی طرح اپنے اخبار میں شائع کِیا تھا ، جس طرح تُم نے کِیا ہے، اُس نوجوان کا نام ہے جمیل اطہر قاضی جو، تمہارا "Senior" ہے یا "Boss" ؟۔ مَیں نے کہا ”محترم کمشنر صاحب !۔ جمیل اطہر قاضی میرے دوست ہیں اور راجپوت بھائی بھی! “ ۔
”شاعروں سے محبت ! “
مجھ سے جناب محمد قاسم رضوی نے پوچھا اثر چوہان !۔ ” سُنا ہے تُم شاعر بھی ہو؟ “۔ مَیں نے کہا کہ ” جی ہاں !۔ فی الحال جنابِ انتظار حسین کی ادارت میں شائع ہونے والے معروف جریدہ ” ادبِ لطیف“ کے دسمبر 1964ءکے شمارے میں شائع ہونے والی اپنی غزل اور 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں اپنے ملّی ترانے کی ایک "Copy" پیش کر رہا ہوں جو، (اُن دِنوں) ہر روز بار بار ریڈیو پاکستان سے نشر ہورہا تھا “ ۔ اِس پر جنابِ محمد قاسم رضوی نے مجھ سے معانقہ کِیا اور کہا کہ ” عزیز ِ من اِس طرح کی کوششیں جاری رکھوگے تو، مجھے بہت ہی خوشی ہوگی!“۔
” شاعرِ نظریہ پاکستان ! “
تین دِن قبل جب مَیں برادرِ عزیز و محترم جمیل اطہر قاضی کے ساتھ سیّد محمد قاسم رضوی صاحب کی شفقتوں اور محبتوں پر گفت و شنید کر رہا تھا تو، مَیں نے اُن سے کہا کہ ” جمیل صاحب !۔ آپ جانتے ہیں کہ ”بردرِ عزیز سیّد شاہد رشید کی فرمائش پر مَیں نے ملّی ترانہ لکھا تو، ” مفسرِ نظریہ پاکستان“ جنابِ مجید نظامی نے مجھے ”شاعرِ نظریہ پاکستان“ کا خطاب دِیا تھا، کاش آج جنابِ سیّد محمد قاسم رضوی زندہ ہوتے؟تو جمیل اطہر صاحب نے کہا کہ ”برادرم !۔ آپ اپنے کئی کالموں میں علاّمہ اقبال کا یہ شعر شامل کر چکے ہیں کہ ....
” مرنے والوں کی جبیں رَوشن ہے ، اِس ظُلمات میں!
جس طرح تارے چمکتے ہیں ، اندھیری رات میں !
معزز قارئین !۔ درگاہِ حضرت مجدد الف ثانی کے خادموں میں سے تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ ) کارکن ، جمیل اطہر صاحب کے چاچا جی ، قاضی ظہور اُلدّین سرہندی مارچ 1985ءکو 60 سال کی عُمر میں اور تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن میرے والد صاحب، رانا فضل محمد چوہان 15 جنوری 1999ءکو، 88 سال کی عُمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔