پاکستان کو اقوام عالم میں گزشتہ روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آٹھویں بار سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب ہونے کی صورت میں سرخروئی حاصل ہوئی جو پاکستان کیلئے ایک نیا ریکارڈ ہے۔ پاکستان کے حق میں بھارت سمیت اقوام متحدہ کے 182 رکن ممالک نے ووٹ دیا۔ دوسرے چار غیرمستقل رکن ممالک کیلئے یونان‘ ڈنمارک‘ صومالیہ اور پانامہ کا انتخاب عمل میں آیا۔ سلامتی کونسل مجموعی پندرہ ارکان پر مشتمل ہے جن میں پانچ مستقل اور دس غیرمستقل ارکان شامل ہیں۔ مستقل ارکان کو ویٹو پاور حاصل ہے چنانچہ سلامتی کونسل میں کوئی قرارداد اگر اکثریت رائے کے ساتھ بھی منظور ہو تو بھی اس قرارداد پر پانچوں مستقل ارکان کا اتفاق ضروری ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک مستقل رکن بھی کسی قرارداد کیخلاف ووٹ دیگا تو اکثریت حاصل ہونے کے باوجود سلامتی کونسل میں وہ قرارداد منظور نہیں ہو پائے گی۔ اس تناظر میں سلامتی کونسل کے دس غیرمستقل ارکان کی حیثیت محض علامتی نظر آتی ہے تاہم روٹیشن میں ہر غیرمستقل رکن کے پاس ایک ماہ کیلئے سلامتی کونسل کی صدارت ضرور آجاتی ہے اور اس ناطے سے غیرمستقل ارکان بھی فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ آج پاکستان دو سال کیلئے سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکنیت منتخب ہوا ہے تو اسکے اس عرصہ کے دوران سلامتی کونسل کے صدر کے منصب پر فائز ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ صرف یہی نہیں‘ سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن ہونے کے ناطے پاکستان عالمی اور علاقائی امن و سلامتی کو درپیش چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے میں بھی موثر کردار ادا کر سکے گا۔ اور کشمیر و فلسطین کے دیرینہ مسائل یواین قراردادوں کی روشنی میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر حل کرانے کے معاملہ میں بھی پاکستان کا کردار اہم ہوگا۔ پہلے بھارت سلامتی کونسل کے مستقل رکن کیلئے پاکستان کے انتخاب کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا‘ اسکے باوجود پاکستان کو سات بار سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جبکہ اب غیرمستقل رکن کیلئے پاکستان کے آٹھویں بار انتخاب میں بھارت بھی اسکے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور ہوا جس سے کم از کم عالمی پلیٹ فارم پر پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ تنازعات کے ناطے سے جاری کشیدگی کی فضا چھٹنے کے امکانات تو پیدا ہوئے ہیں۔
اس وقت بھارتی انتخابات کے نتائج نے جس طرح ہندو انتہاءپسند بی جے پی کو پسپائی کے راستے پر ڈالا ہے اور اس کیلئے اپنی اتحادی جماعتوں کی مدد کے بغیر سادہ اکثریت کے ساتھ بھی حکومت تشکیل دینا مشکل نظر آرہا ہے‘ اس لئے نئی بھارتی حکومت کیلئے عالمی فورموں پر بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں پہلے جیسی جارحانہ بڑھکیں لگانا بھی مشکل ہوگا۔ چنانچہ اس فضا میں بھارت کا سلامتی کونسل کے غیرمستقل رکن کیلئے پاکستان کے حق میں ووٹ دینا اسکے خیرسگالی کے جذبہ سے ہی تعبیر ہوگا اور آگے چل کر برف پگھلے گی تو پاکستان اور بھارت کے مابین دوطرفہ مذاکرات کی میز بھی دوبارہ سج سکتی ہے اور یواین قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کا راستہ بھی کھل سکتا ہے جس کیلئے اب اقوام متحدہ کے فورم پر لامحالہ پاکستان کا کردار زیادہ موثر ہوگا کیونکہ اس وقت بھارت کے پاس سلامتی کونسل کی غیرمستقل رکنیت بھی موجود نہی۔ سلامتی کونسل کی غیرمستقل رکنیت کی میعار دوسال تک کی ہوتی ہے اور جنرل اسمبلی روٹیشن میں ریٹائر ہونے والے پانچ غیر مستقل ارکان کی جگہ ہر سال نئے ارکان کا انتخاب عمل میں لاتی ہے۔ اس تناظر میں بھارت کا سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کے طور پر بھی دوبارہ انتخاب بہت دور کا معاملہ نظر آتا ہے۔
سلامتی کونسل کو یواین چارٹر کے آرٹیکل 24 کے تحت چونکہ عالمی امن و سلامتی کیلئے خوداقدامات اٹھانے اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر اسکے رکن ممالک سے عملدرآمد کرانے کا اختیار حاصل ہوتا ہے اس لئے سلامتی کونسل ہی اقوام متحدہ کا حقیقی بااختیار ادارہ ہے۔ اس تناظر میں سلامتی کونسل کے ہر رکن ملک کو‘ چاہے وہ مستقل ہو یا غیرمستقل‘ عالمی امن و سلامتی کے عمل میں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ سلامتی کونسل ہی کسی ملک پر بین الاقوامی پابندیاں لگانے اور کسی ملک میں فوجی کارروائی عمل میں لانے کیلئے جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کراتی ہے۔ ویٹو پاور کے حامل سلامتی کونسل کے مستقل ارکان بالعموم جنرل اسمبلی کے ایسے فیصلوں میں مانع نہیں ہوتے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ممالک بذات خود اپنے مفادات کیخلاف اقوام متحدہ کی کوئی بھی قرارداد پاﺅں کے نیچے مسلنے اور ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کو اپنا حق گردانتے ہیں۔ اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کی حیثیت بھی آج لیگ آف نیشنز جیسے قطعی غیرموثر عالمی ادارے جیسی نظر آرہی ہے۔ سلامتی کونسل کے ان مستقل ارکان نے جن میں امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ چین اور روس شامل ہیں‘ اقوام متحدہ کو عملاً اپنی ناک کا بال بنایا ہوا ہے چنانچہ عالمی امن و سلامتی اور جنگ وجدل کا معاملہ ان پانچ ممالک کے ہی مرہون منت ہے۔ اسی تناظر میں امریکہ نے ہمارے خطے سے وابستہ اپنے مفادات کے تحت بھارت کو علاقے کا تھانیدار بنانے کی کوشش کی تو اسے اپنی سرپرستی میں سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی کوششیں بھی شروع کر دیں جس کیلئے لازمی طور پر یواین چارٹر میں ترمیم کی جاتی چنانچہ پاکستان کے علاوہ چین اور اقوام متحدہ کے دوسرے رکن ممالک نے بھی بھارت کے دہشت گرد چہرے کو اجاگر کرکے اسے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی امریکی سازش اقوام متحدہ کے فورم پر ناکام بنائی۔
بے شک آج بھارت کے ممکنہ طور پر تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونیوالے نریندر مودی کی گردن میں آیا سریا پگھل چکا ہے۔ اسکے باوجود سانپ کے ڈنک مارنے کی علت تو ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ کسی بھی وقت دوبارہ پاکستان کی سلامتی اور علاقائی و عالمی امن و سلامتی کے درپے ہو سکتے ہیں جس کیلئے انہیں مکمل امریکی سرپرستی بھی حاصل ہے۔ چنانچہ امریکہ کی جانب سے بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنوانے کی کوششیں بھی دوبارہ شروع ہو سکتی ہیں جس کا اصل مقصد مسلم دنیا کیخلاف الحادی قوتوں کو متحد و متحرک کرنے کا ہے۔
انہی درپیش چیلنجوں میں پاکستان کا سلامتی کونسل کے غیرمستقل رکن کے طور پر انتخاب مسلم دنیا کیلئے بھی خوش آئند ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے سلامتی کونسل کی رکنیت کیلئے پاکستان کا انتخاب قوم کے عزم کے ساتھ منسلک کیا ہے اور چین نے اس عالمی فورم پر پاکستان کے دم قدم رہنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ اگر مسلم دنیا میں بھی اپنے مسائل خود حل کرنے اور کسی طاغوتی طاقت کا غلبہ قبول نہ کرنے کا جذبہ پیدا ہو جائے تو سلامتی کونسل میں پاکستان کی رکنیت کا دو سال کا عرصہ اتحاد امت کیلئے بھی مو¿ثر ثابت ہو سکتا ہے۔