ادارے حدود میں رہیں، ججز سمیت کوئی قانون سے بالا نہیں: جسٹس محسن

Jun 08, 2024

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ شاعر احمد فرہاد کی واپسی پر جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے 164کا بیان ریکارڈ کرائیں جس کی روشنی میں جبری گمشدگی کی تفتیش آگے بڑھائی جائے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ادارے اپنی حدود میں کام کریں۔ ادارے کی انا کے مسئلے میں ایک آدمی 2مقدموں میں چلاگیا جس سے ان کی فیملی متاثر ہورہی ہے۔ ججز سمیت کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ قومی سلامتی کے معاملات پر عدالت ان کیمرا پروسیڈنگ اور اس کی رپورٹنگ پر پابندی لگائے گی۔ وکیل ایمان مزاری نے بتایا کہ احمد فرہاد پر پہلے ایک مقدمے کا بتایا گیا اور بعد میں ایک اور پرچہ درج ہو گیا۔ احمد فرہاد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت مسترد ہو گئی ہے جسے ہائیر فورم پر چیلنج کررہے ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے مجھے لگ رہا ہے کہ اس عدالت میں کارروائی کے نتیجے میں احمد فرہاد کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی یہ یقین ہے کہ وہ جوڈیشل کسٹڈی میں ہے اس لیے کیس نمٹا دیتے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اگر مغوی ریکور ہو جائے تو حبس بے جا کی درخواست خارج ہوجاتی ہے، یہ کہتے ہیں کہ اغواکاروں کا تعین کرنے کی ہدایات بھی جاری کی جائیں۔ یہ بات تفتیش میں سامنے آئے گی۔ مغوی جوڈیشل کسٹڈی میں ہیاور احمدفرہاد کا 161 کا بیان لکھا گیا ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے پولیس اگرٹرائل میں کسی کو پکڑ ے اور 2دن تک پیش نا کرے تو ٹرائل ہی ختم کردیتے ہیں۔ احمد فرہاد گرفتاری سے قبل کہاں تھا؟سوال جبری گمشدگی کا ہے۔ تفتیشی افسرنے کشمیر جاکر احمد فرہاد کا بیان ریکارڈ کیا ہے؟ ذرا وہ دکھائیں۔ اس میں تو لکھا ہے کہ میں ذہنی دباؤ اور جسمانی حالت کے باعث بیان دینے کے قابل نہیں۔ یہ بھی لکھاہے کہ وہ خود عدالت میں پیش ہوکر یا وکیل کے ذریعے بیان دے گا، آخر میں ایک شعر بھی لکھا۔ یہ ظلم کا ایک سلسلہ اورروز کاکام ہے،اسلام آبادکی حدود کو عدالتیں دیکھیں گی۔ پھر ان کو یہ بات بُری لگے گی، ان کو آسمان پر مت بٹھائیں، ان کے عدالت پیش ہونے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ قانون کو احترام دیں۔ اسلام آبادمیں قانون کی عملداری کیسے ہونی ہے؟اس پرفیصلے کیلیے معاملہ کمیٹی کو بھجوا رہا ہوں، ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر بھی پیش ہوں۔ مسنگ پرسنز کے کیسز لارجر بینچ کو اس لیے بھجوارہا ہوں کہ ایک جج کا موقف کچھ اور ہو تودوسرے ججزبھی دیکھیں۔ ہوسکتا ہے کہ باقی ممبران اس سے متفق نہ ہوں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کوبلانا ہے۔ ہم نے کہیں بیٹھنا ہے اور طے کرنا ہے کہ کون سی لائن ہے جسے کراس نہیں کرنا۔ اس ایک کیس میں پوری حکومتی مشینری یہاں آکر کھڑی ہوتی ہے۔ ادارے یا عدالتیں انا کے مسئلے پر نہیں چلتیں۔ میں ابھی بھی restrain کامظاہرہ کررہا ہوں کہ کہیں کوئی نقصان نا ہو جائے۔ یہ عدالت اس آدمی کے حق کے تحفظ کے لیے ہر وقت کھڑی ہے۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا آپ کہتے  ہیں کہ آزادکشمیر کا اپناوزیراعظم، پارلیمنٹ،آئین اورعدالتیں ہیں۔ یہ دائرہ اختیار کی بات ہے۔ 

مزیدخبریں