امن و امان کی صورتحال مجموعی طور پر پورے ملک میں اور خصوصی کراچی اور بلوچستان میں بد سے بدترین ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پہلے بلوچستان میں ایک ماہ کے وقفے سے دو سو کے قریب افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے اور کراچی تو ایک مدت (تقریباً ایک دہائی) سے مسلسل فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے اور ابھی چند روز قبل کراچی کے علاقے اصفہانی روڈ پر بم دھماکے میں پچاس افراد لقمہ اجل بن گئے اور ڈیڑھ سو سے زیادہ افراد شدید زخمی ہو گئے۔ دو رہائشی عمارتیں جل کر خاکستر ہو گئیں اور بہت سی گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔ جس وقت یہ سانحہ کراچی میں رونما ہوا، صدر مملکت، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور گورنر سندھ کراچی میں موجود تھے۔ لیکن واردات ہونے کے کئی گھنٹے بعد ان کی طرف سے مذمتی بیانات آئے اور امن و امان کے رکھوالے جائے وقوعہ پر پہنچے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ حکومتی بیانات کے مطابق دہشت گردی کی موجودہ لہر تحریک طالبان اور ”خفیہ ہاتھ“ کی کارستانی ہے۔ جہاں تک طالبان کا تعلق ہے تو وہ ایک مدت سے اپنی کارروائی میں مصروف ہیں۔ لیکن کسی حکومت نے بھی ان کا ہاتھ روکنے یا صورتحال کے تدارک کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ رہا معاملہ ”خفیہ ہاتھ“ تو خفیہ ہاتھ کیا اس قدر مضبوط اور صاحب قدرت ہے کہ جس کے آگے ہمارے تمام ادارے ناکام اور مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں؟ اگر ارادہ مضبوط اور نیت صاف ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے کوئی سیاسی اور جمہوری لائحہ عمل طے ہی نہیں کیا ورنہ پولیس، رینجرز حتیٰ کہ فوج کی موجودگی میں حالات خرابی کی اس انتہا تک نہیں پہنچنے چاہئیں تھے۔ رحمان ملک اس طرح کے واقعات کے بعد فوری طور پر مضحکہ خیز اور ناقابل یقین دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ہم نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک رسائی حاصل کر لی ہے۔ بہت جلد یہ لوگ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ یا دہشت گردوں کی آماجگاہیں پنجاب میں ہیں۔ پنجاب حکومت کو 534افراد کی لسٹ دی ہے۔ اگر یہ سب گرفتار ہو جاتے ہیں تو ملک سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی.... وغیر ہ وغیرہ.... بندہ پوچھے کہ یہ لسٹ آپ فراہم کر کے چپ کیوں بیٹھ گئے؟ پنجاب حکومت کو اس امر پر مجبور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردوں کو گرفتار کرے.... دوسری بات یہ کہ آپ کو حکومت کرتے ہوئے پانچ سال گزر گئے ہیں۔ کراچی میں ہر روز ٹارگٹ کلنگ میں پندرہ، بیس افراد مارے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے آپ کی ڈیوٹی ہے کہ آپ وہاں امن و امان قائم کرنے کے لئے ٹھوس اور موثر حکمت عملی مرتب کریں اور اس پر عملدرآمد بھی کروائیں اس امر میں کون سی شے مانع ہے؟ اسی طرح جب سے گوادر پورٹ چین کے حوالے کرنے کا معاہدہ ہوا ہے، بلوچستان میں بھی قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ اس ”خفیہ ہاتھ“ کو ڈھونڈ کر توڑنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے جس نے پورے ملک کو عدم تحفظ اور خوف و ہراسکی سولی پر لٹکا رکھا ہے۔اس بات پر کیوں غور نہیں کیا جا رہا کہ بلوچستان اور کراچی میں ایک خاص مذہبی فرقہ ہی اس دہشت گردی کا نشانہ کیوں بن رہا ہے؟ وہ کون سے لوگ ہیں؟ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان میں مذہبی منافرت کو ہوا دے رہی ہیں اور ہمیں اندر سے کھوکھلا کر رہی ہیں۔ کچھ بعید نہیں کہ ان واقعات میں بھارت ملوث ہو کیونکہ پاکستان کا استحکام بھارت کو کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ لہٰذا اس بات کو ذہن میں رکھ کر تفتیش کی جائے اور اسکے علاوہ جن لوگوں یا قوتوں کی نظریں ہمارے معدنی وسائل پر ہیں انکے ملوث ہونے کا بھی امکان ہے۔ اس لائن پر سوچیں اور جستجو کر کے حالیہ دہشت گردی کے اصل محرکات تک پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ ایسا نہیں کہ ہمارے تمام اداے نااہل ہیں۔ ضرورت صرف سنجیدگی اور حب الوطنی کی ہے۔ موجودہ حکومت کے بقیہنو دن رہ گئے ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایک مضبوط حکومت کے ہوتے ہوئے اگر ملک بدامنی اور دہشت گردی کے شعلوں میں لپٹا ہوا ہے تو ایک عبوری حکومت دہشت گردی کے اس عفریت پر کس حد تک قابو پا سکے گی؟ الیکشن سر پہ کھڑے ہیں اور ملک بدامنی اور دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ کیا عبوری حکومت پرامن، غیرجانبدارانہ اور شفاف الیکشن کروانے میں کامیاب ہو سکے گی؟ صدر آصف علی زرداری جاتے جاتے جہاں ایران کے ساتھ گیس منصوبے کا تحفہ عوام کو دئیے جا رہے ہیں وہاں ملک میں امن و امان قائم کرنے کے لئے بھی کچھ ایسے موثر اقدامات کرتے جائیں کہ عبوری حکومت پورے اطمینان کے ساتھ الیکشن کا انعقاد کروا سکے۔ خصوصی طور پر کراچی اور بلوچستان کی صورتحال پر قابو پانے کے لئے جو بھی جمہوری اور سیاسی اقدامات اٹھانا پڑیں اٹھائیں! تاکہ دونوں جگہوں پر لوگ بے خوف و خطر اور پرامن طریقے سے ووٹنگ میں حصہ لے سکیں۔ اگر حالات یہی رہے تو اکثریت ووٹ ڈالنے سے محروم رہ جائے گی جس کا نقصان سیاسی پارٹیوں ہی کو ہو گا۔ میاں نواز شریف کو بھی کراچی اور بلوچستان میں امن و امان قائم کرنے کی خاطر حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ملک تو سب کا ”سانجھا ہے۔ اس کی حفاظت اور اس کا استحکام ہم سب کی پہلی ترجیح ہونا چاہئے۔ بقول حضرت اقبالؒ:ہر فرد ہے ملت کا مقدر کا ستارہ