صدر آصف زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی حکومت اس بات پر پھولے نہیں سماتی کہ اس نے نظام جمہوریت کے تحت اپنی پانچ سال کی مدت پوری کر لی ہے اور اب عام انتخابات کرانے کےلئے 2008ءمیں قائم ہونے والی وفاقی اور صوبائی اسمبلیاں 16 مارچ کو تحلیل ہو جائیں گی اور اقتدار دو ماہ کی عارضی مدت کےلئے نگران حکومت کو منتقل ہو جائے گا۔ پیپلزپارٹی کا مایہ افتخار یہ ہے کہ اس سے قبل کسی سیاسی حکومت نے 1973ءکے آئین میں مقرر شدہ پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی۔ حتیٰ کہ ذوالفقار علی بھٹو بھی جب 1973ءمیں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے بھی اپنے عہد کی مفروضہ کامیابیوں سے سرشار ہو کر 1977ءمیں معینہ مدت سے پہلے انتخابات کرائے تھے جو بڑے پیمانے پر دھاندلی کا شکار بنا دیئے گئے۔ اس دھاندلی کے خلاف حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایک موثر ملک گیر تحریک برپا کر دی تھی عین آخری وقت پر جب حکومت اور حزب اختلاف کے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات روشن ہو رہے تھے تو ذوالفقار علی بھٹو سے وفاداری کا وعدہ کرنیوالے آرمی چیف جنرل ضیاءالحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ قائداعظم کا بچا کھچا پاکستان ایک مرتبہ پھر فوجی حکومت کے نرغے میں آ گیا اور ذوالفقار علی بھٹو اپنی حکومت کے پانچ سال پورے نہ کرسکے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سیاسی حکومتوںمیں سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے اور اب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حالیہ وزیراعظم راجا پرویز اشرف اور صدر زرداری نے میعاد کے اعتبار سے نسبتاً لمبے عرصے تک جمہوری نظام کے تحت حکومت کی۔
ذوالفقار علی بھٹو سقوط ڈھاکہ کے بعد کرب اور غم کی فضا میں اس وقت برسراقتدار آئے جب یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے 1970ءکے انتخابات کو ثمریاب ہونے کی اجازت نہ دی اور متحدہ پاکستان کی فضاﺅں میں ”ادھر تم.... ادھر ہم“ کا نعرہ گونجنے لگا۔ اس نعرے کو عملی صورت دینے میں جنرل یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان نے اہم کردار ادا کیا۔ چوتھا کردار بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کا تھا ۔اس المیے کے تین کردار بھٹو، مجیب اور اندرا غیر فطری موت مرے اور یحییٰ خان جو پاکستان کی صدارت کا خواب دیکھ رہے تھے اور شکست عظیم کے بعد مغربی پاکستان کےلئے نئے دستور کا مسودہ بھی تیار کر چکے تھے، معزولی کی نذر ہو گئے۔ تاہم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے چند ایسے کام ضرور کئے جن سے انکا نام تاریخ کے ابواب میں روشن ہے۔ انکا ایک کارنامہ 1973ءکا جمہوری آئین متفقہ طور پر قومی اسمبلی سے منظور کروانا ہے اور دوسرا کارنامہ پاکستان کے دفاع کےلئے ایٹم بم کی تیاری کے اسباب فراہم کرنا ہے۔ ایٹمی سائنس دان عبدالقدیر خان کو یورپ سے وطن واپس لانا اور انہیں ایٹمی امور کاسربراہ بنانا بھی یہ حقیقت ثابت کرتا ہے کہ وہ کسی اہم کام کیلئے صحیح اور ماہرِ فن کو منتخب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ مئی 1988ءمیں اگرچہ چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی دھماکے کرنے کا اعزاز میاں محمد نواز شریف کو ملا لیکن بھٹو صاحب کا افتخار یہ ہے کہ انہوں نے پوری دنیا کی مخالفت کا سامنا کیا اور قوم کو گھاس کھا کر ایٹمی طاقت بنانے کے دفاعی کام کو استقلال اور تندہی سے جاری کر دیا۔
پاکستان کی سیاست میں آصف علی زرداری کا وارد ہونا کسی منصوبہ بندی یا سیاسی تربیت کا نتیجہ نہیں اگر ان کی شادی بے نظیر بھٹو سے نہ ہوتی تو اٹھارہ کروڑ عوام کے ملک میں وہ بھی گمنام ہوتے اور صرف اپنے مخصوص حلقے میں مقامی طور پر پہنچانے جاتے۔ ان کی قسمت نے یاوری کی اور وہ بے نظیر بھٹو کے شوہر نامدار بن گئے لیکن بے نظیر بھٹو کے ادوار اقتدار میں نیک نامی حاصل نہ کر سکے لیکن جب بے نظیر بھٹو امریکی معاہدے کے تحت فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کیساتھ کام کرنے کےلئے خود ساختہ جلاوطنی سے پاکستان واپس آئیں تو اپنے بدخواہوں کی ہوسِ اقتدارر کا نشانہ بن گئیں اور این آر او کے تحت جو ثمرات بے نظیر بھٹو نے حاصل کرنے تھے، وہ آصف علی زرداری نے سمیٹے۔ بے نظیر بھٹو کی ایک مبینہ ”وصیت“ کیمطابق بلاول بھٹو زرداری کو پی پی پی کا صدر بنا لیا گیا اور آصف زرداری کو بلاول کی تعلیم کی تکمیل تک معاون صدر منتخب کر لیا گیا۔ انہوں نے فروری 2008ءکے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور اس عوامی ہمدردی کا فائدہ اٹھایا جو دہشت گردی کی ہولناک اور سفاکانہ واردات میں بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پیدا ہوئی تھی اور اب جو پیپلزپارٹی سامنے آئی اس پر لیبل تو ذوالفقار علی اور بے نظیر بھٹو کا لگا ہوا تھا لیکن اس میں روح زردارری صاحب کی تھی جس کی ساخت غیر سیاسی اقدار پر ہوئی تھی۔ ان کا پاکستان جیسے نظریاتی ملک کا صدر بن جانا بھی مشیت کا عقدہ ہے جسے فانی انسان حل نہیں کر سکتا۔ پاکستان کی خلقِ خدا چیخ رہی ہے کہ صدر پرویز مشرف کے بعد زرداری صاحب نے بھی ترقی معکوس کے نئے ریکارڈ قائم کئے اور اپنی ”بیڈ گورننس“ میں قوم کے پانچ قیمتی سال ضائع کر دیئے۔ ملک اندھیروں میں ڈوب گیا۔ معیشت تباہ ہو گئی، خود کش دھماکوں کی افراط میں اور ٹارگٹ کلنگ کی یلغار میں کراچی، کوئٹہ اور پشاور جیسے بڑے شہر قتل گاہیں بن گئیں، سرکاری اور فوجی املاک پر حملے ہونے لگے۔ ڈرون طیاروں نے بمباری جاری رکھی، اپنے پیاروں کا انتقام لینے کےلئے مقامی طور پر دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آگئیں۔ فرقہ وارانہ نفرت کو فروغ ملنے لگا۔ بے روز گاری اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی لیکن پی پی پی کے جیالے حکومت کی ناکامیوں کے پانچ سال پورے ہونے پر تقاضا کر رہے ہیں کہ ان کےلئے تحسین کے ڈونگرے بجائے جائیں اور انکی نااہلیت پر پھول نچھاور کئے جائیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر بدامنی، طوائف الملوکی اور حکومت کی رٹ کے عیناب پر پی پی پی کی حکومت نے پانچ سال پورے کیسے کر لئے؟
بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ فوج نے جنرل پرویز مشرف کی وردی اتارنے کے دن سے ہی سیاست میں عدم مداخلت کا رویہ اختیار کیا اور جنرل پرویز کیانی نے سیاسی حکومت کے احکام کو فوجی آپریشن کیلئے فوقیت دی۔ اس دوران کئی مواقع پر راولپنڈی سے اسلام آباد کی طرف فوجی بوٹوں کی چاپ کی افواہیں اڑتی رہیں لیکن فوج کا سربراہ اپنے وعدے پر قائم رہا اور سیاسی حکومت کو حساس فیصلے خود کرنے کا پورا موقعہ دیا۔ دوسری بڑی وجہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کا دوستانہ رویہ ہے۔ آصف زرداری کی ”خوش قسمتی“ سمجھئے کہ نواز شریف بھی فوجی حکومت کے ڈسے ہوئے تھے اور ایک فوجی شب خون میں حکومت کھو دینے کے علاوہ قید و بند اور جلاوطنی کی سزا بھی بھگت چکے تھے اور اب اتنے سہمے ہوئے تھے کہ جمہوریت کو پٹڑی پر ڈالے رکھنے کےلئے ہی کوشاں رہے اور زرداری صاحب کے ”وعدہ خلافی“ کے رویے کو بھی صبر و تحمل سے برداشت کیا۔ آزاد میڈیا نے حکومت کے کارناموں اور کرپشن کے سیکنڈلوں کا راز فاش کیا، ”زرداری جمہوریت“ نے جو نئی ”ڈاکٹرائن“ وضع کی تھی، اس کا بھانڈہ چوراہے میں پھوڑا لیکن جمہوریت کو ڈی ریل (De Rail) نہیں ہونے دیا سب سے اہم یہ کہ آزاد عدلیہ نے بحالی کے بعد تاریخی فیصلے دیئے، عدالت عظمیٰ نے ”سوموٹو ایکشن“ کے علاوہ کراچی اور کوئٹہ کے حالات پر قابل عمل فیصلے دیئے لیکن حکومت نے عدالتی فیصلوں کو طاق نسیاں پر رکھنے کا طریق اپنایا اور دہشت گردی کی امریکی جنگ کا مدار پاکستان تک پھیلا دیا۔ زرداری جمہوریت کے پانچ سال پورے ہو رہے ہیں لیکن یہ شرمناک جمہوریت کے پانچ سال ہیں جن میں قوم پچاس سال پیچھے چلی گئی ہے۔