خواتین کی بااختیاری، خواب سے حقیقت تک

میرے لئے یہ بات حقیقی طور پر انتہائی فخر اور اطمینان کا باعث ہے کہ پاکستان نے گذشتہ چند برسوں کے دوران خواتین کی بااختیاری اور آزادی کے مقصد کی جانب اہم پیش رفت کی ہے۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) پاکستان میں سماجی شعبہ کے عظیم ترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ یہ پیش رفت میرے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پروگرام نے نہ صرف غربت میں پائیدار طور پر کمی کی بنیادیں رکھی ہیں بلکہ معاشرے میں خواتین کے عمومی مقام و مرتبے کے متعلق لوگوں کے دلوں اور ذہنوں کو تبدیل کیا ہے۔خواتین کا بین الاقوامی دن مناتے ہوئے مجھے اچھی طرح یاد آ رہا ہے کہ بی آئی ایس پی، جو کہ سماجی شعبہ کا منفرد پروگرام ہے، کے آغاز میں ہی غربت کے خاتمہ کے علاوہ خواتین کو قومی دھارے میں لا کر اُن کی سماجی و معاشی ترقی کو اہم ترین مقاصد میں شامل کیا گیا تھا۔بحیثیت قوم ہم محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رانا لیاقت علی خان اور بیگم نصرت بھٹو کے شکرگزار ہیں جنہوں نے خواتین کی بااختیاری کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔شہید بینظیر بھٹو کی فعال اوربصیرت افروز قیادت کے پیش نظر یہ پروگرام اس انداز سے وضع کیا گیا کہ معاشرے میں خواتین کو بااختیار بناتے ہوئے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جائیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خواتین کی بااختیاری کسی بھی ملک یا معاشرے کی پائیدار سماجی و معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔یہ مثبت طرزِ فکر ایسے معاشروں کو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی متحرک شرکت کے فوائد سے مستفید کرتی ہے۔اس امر کا مشاہدہ انتہائی اہم ہے کہ آج خواتین اپنے کردار، ہستی اور حقوق سے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ ہیں۔
خواتین کا عالمی دن پاکستانی خواتین کے لئے بھی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جنہوں نے معاشرے میں لاکھوں بے نوا خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے لازوال جدوجہد کی۔ اس غیر معمولی جدوجہد کے دوران کئی تاریخی کامیابیاں حاصل کی گئیں تاہم معاشرے میں خواتین کے مقام کو مزید بلند کرنے کیلئے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
حالیہ برسوں کے دوران خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے چند اہم سنگِ میل حاصل کئے گئے۔یہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کے مطابق خواتین کی بااختیاری اور آزادی کے ثمرات حاصل کرنے کی جانب انتہائی حوصلہ افزاءپیش رفت ہے۔ہمارے عظیم قائد کا کہنا تھا ” کوئی قوم اُس وقت تک اپنا وجود برقرار رکھنے کی اہل نہیں ہوسکتی جب تک وہ خواتین کو مردوں کے ساتھ لیکر نہ چلے اورکوئی جدوجہد خواتین کی مردوں کے شانہ بشانہ شرکت کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کر سکتی“ ۔
پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت تھی جس نے قائد اعظم کی اس بصیرت کو صحیح معنوں میں زندہ کیا اور یہ مقصد خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات اور سماجی، سیاسی اور معاشی اصلاحات میں خواتین کی بہبود کو لازمی جُزو بناتے ہوئے حاصل کیا۔
بعدازاں ایک طویل آمرانہ دور کے بعد، جس میں ملک کی خواتین کو سب سے زیادہ صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، شہید بینظیر بھٹو نے ایسی خواتین دوست پالیسیوں کو ازسرنو شروع کیا جن سے معاشرے میں خواتین کا مقام بحال ہو سکے اور اُن کی سماجی و معاشی مشکلات میں کمی لائی جا سکے۔ وہ صحیح معنوں میں خواتین کے حقوق اور بااختیاری پر یقین رکھتی تھیں لہٰذا اُنہوں نے اپنی حکومت کی پالیسیوں میں خواتین کی بہبود کومرکزی حیثیت دیتے ہوئے یہ مقصد حاصل کیا۔
خواتین کے حقوق کے ساتھ شہید بینظیر بھٹو کی وابستگی میرے لئے ہمیشہ ایک مہمیز کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ انہوں نے پہلی بار وفاقی کابینہ میں وزارتِ خواتین کو متعارف کرایا۔ مزید برآں انہوں نے ملک میں خواتین کی بااختیاری کا مقصد حاصل کرنے کیلئے کئی انقلابی پالیسیاں متعارف کرائیں۔
شہید بینظیر بھٹو نے خواتین کی بااختیاری کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے ایک بار یہ قرار دیا ” بااختیاری کے معنٰی معاشی آزادی کے ہیں۔بااختیاری تعلیم کا حق اور فیصلے کرنے کا اختیار ہے۔ بااختیاری اپنا کیرئیرچُننے کا موقع حاصل ہونے کا حق ہے۔بااختیاری جائیداد رکھنے، جائیداد کا مالک ہونے، کاروبار شروع کرنے اور مارکیٹ میں پھلنے پھولنے کا حق ہے۔“ آج بی آئی ایس پی غربت کے خاتمہ اور خواتین کی بااختیاری کے حوالے سے اپنی کثیر الجہتی حکمت عملی کے ذریعہ شہید بی بی کی اس بصیرت کو اپنے پروگرام کا حصہ بنا چکا ہے۔اس حکمت عملی میں وسیلہ حق، وسیلہ روزگاراور وسیلہ تعلیم کے علاوہ ہیلتھ اور انشورنس کی سہولتیں شامل ہیں جو لاکھوں مستحق خاندانوں کو خواتین کے بنیادی مستفید کنندہ بناتے ہوئے مہیا کی جا رہی ہیں۔
شہید رہنما کے اسی تصور کے حصول کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی کی سرکردگی میں موجودہ جمہوری حکومت نے اپنے پانچ برسوں پر محیط آئینی عرصہ حکومت کے دوران ایسے متعدد نئے قوانین متعارف کرائے جن کا مقصد خواتین کے حقوق کا تحفظ ہے۔پاکستان کی خواتین کو اب بھی لاتعداد چیلنجز درپیش ہیں تاہم توقع کی جاتی ہے کہ منفی معاشرتی طرزِ عمل اور خواتین دشمن ذہنیت کو مختلف سطحوں پر پُر لگن اور مربوط کاوشوں کے ذریعے آخرکار شکست سے دوچار کیا جائے گا۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام نے سماجی تحفظ ایک جامع نیٹ کے طور پر خواتین کی سماجی و معاشی ترقی اور بااختیاری کا ضروری مقصد حاصل کرنے کی جانب اہم کردار ادا کیا ہے۔خاندان کی خواتین سربراہوں کو بنیادی مستفید کنندہ بناتے ہوئے یہ پروگرام ایک بڑی پیش رفت ثابت ہوا ہے اور دنیا بھر کے موقر عالمی اداروں کی جانب سے اس کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اﷲ کا شکر ہے کہ گذشتہ چار برسوں کے دوران ڈیڑھ کروڑ سے زائد خواتین نے بی آئی ایس پی کے ساتھ رجسٹرڈ ہونے کیلئے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ حاصل کئے۔
بی آئی ایس پی نے اس امر کا تہیہ کر رکھا ہے کہ مستقبل میں ہونے والی پاکستان کی ترقی کے عمل میں خواتین کو اُن کی کھوئی ہوئی شناخت واپس کی جائے گی۔ خواتین کا عالمی دن ہمیں ملک میں خواتین کی بااختیاری کے حوالے سے اپنے اقدامات کا ازسرِنو جائزہ لینے اور معاشرے میں خواتین کے مرتبے کو بلند کرنے کے مقصد کے ساتھ وابستگی کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے۔
انشاءاﷲ پاکستان عہد جدید کی ذمہ دار فلاحی مملکت کے طور پر اُبھرے گا۔

ای پیپر دی نیشن