ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان میں عالمی یومِ خواتین کے حوالے سے ایک خاتون مصنفہ صفیہ اسحاق کی لکھی ہوئی کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی جو ہر لحاظ سے بہت منفرد تھی۔ 176صفحات پر مشتمل کتاب کا نام ہے ”مجید نظامی عہد ساز شخصیت“ اس کتاب کو ارمغان حجاز فاو¿نڈیشن 50 عثمان بلاک گارڈن ٹاو¿ن نے بہت خوبصورت انداز میں طبع کرایا ہے۔ کتاب کی افادیت بڑھانے کے لئے یادگار تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ مجید نظامی پر اس سے پہلے بھی تین اہم کتابیں ”رودادِ جنون“ از خالد کشمیری ”جب تک میں زندہ ہوں“ مصنفہ عائشہ مسعود اور ” مجید نظامی اعترافِ خدمت“ مرتبہ شاہد رشید مقتدر حلقوں سے بھرپور داد سمیٹ چکی ہیں۔کتاب کے ابواب سے ہی پوری کتاب کا خلاصہ بیان ہو جاتا ہے۔ سن عیسوی کی بیسویں صدی، تحریک ساز تحریک کا حدی خواں، ادارہ نوائے وقت کی سربراہی، جرا¿ت مندانہ اور دیانتدارانہ صحافت۔ پیکر ایثار و وفا، سچے اور کھرے پاکستانی، قائد و اقبال کی تعلیمات کے پرچارک، تعمیر پاکستان کے قافلہ سالار پاسبانِ وطن، سانگلہ ہل سے لندن تک سفر، نوائے وقت کی ادارت، امتِ مسلمہ کے مفاد کے محافظ، اسلامی فلاحی و جمہوری نظام کے علمبردار، آمرانہ حکومتی پالیسیوں کے نقاد، عوام کی ذہنی سیاسی تربیت میں پیش پیش ، جمہوری اور اخلاقی روایات کے پاسبان تابناک عہد ادارت کا درخشاں باب، نہ جھک سکے نہ بک سکے۔ ایوب خان کے خلاف مادرِ ملت کا سپاہی، اختیار کی کامیاب ترغیب کے متحرک۔ خونِ دل صرف کیا ہے تو بہار آئی ہے۔ ایوانِ اقبال میں بھارتی وزیراعظم کی آمد پر پابندی افواج پاکستان پر قرض، مسئلہ کشمیر کا حل صرف جہاد، ایٹمی دھماکے کرنے میں کردار، استحکام پاکستان تحریک کے پرچم بردار نام نہاد محبِ وطن اور بزعم خود صحافیوں کی مخالفت اور پاکستان ایٹمی قوت بن گیا۔ پاکستان کے قلم بدست مجاہد، ازلی دشمن بھارت کے عزائم میں سرِراہ دکھی دل پاکستانیوں کے ترجمان، مسلم ثقافتی اقدار کے محافظ، دو قومی نظریہ کے علمبردار، بصیرت افروز خیالات۔ اس میں پاکستان کے مبلغ، ففتھ کالمسٹوں کا تعاقب دنیائے صحافت میں پہلی مثال۔ ارضِ پاکستان کے سب سے قد آور ایڈیٹر، جامعہ پنجاب کی طرف سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری ، جرا¿ت مندانہ اور دیانتدارانہ صحافتی خدمات کا اعتراف کچھ نہفتہ داستانیں کچھ شفگتہ تذکرے، جنرل صاحب قوم کی جان کب چھوڑیں گے۔ مارشل کورٹ نہ لاء ہے نہ کورٹ، نوازشریف کا رنگ فق ہو گیا۔ فیلڈ مارشل صاحب اپنے بیٹے کو اخبار نکلوا دیں۔ دوہٹہ پیلس (قصر فاطمہ) میں مادرِ ملت کے حضور میں عنوانات سے کتاب کا خلاصہ سمجھ میں آ جاتا ہے، اب اصل بات کی طرف آتے ہیں (کتاب پر بولنے والوں کے خیالات اس لئے نہیں دے رہا کہ وہ آپ نیوز کے صفحہ پرپڑھ چکے ہیں اور وہ بات ہے کہ صفیہ اسحاق کو کتاب لکھنے کی تحریک کیسے پیدا ہوئی اس کا جواب دیتے ہوئے نوائے وقت کو بتایا بچپن سے ہی حمید نظامی اور مجید نظامی کا تذکرہ سنا ہوا تھا ۔ نظریہ پاکستان سے تیس سال پرانی وابستگی ہے ذہن تو میں پہلے ہی بنا چکی تھی کہ وقت آنے پر مجید نظامی کو ایسا خراج تحسین پیش کرنا ہے کہ رہتی دنیا تک لوگ یاد کریں ۔ دو سال پہلے میں سعودی عرب سے اپنے سائنسدان شوہر محمد اسحاق کے ساتھ پاکستان آئی تو مجید نظامی نے ہمیں چائے پر بلایا۔ جاتے ہوئے وہ کتابوں کی شیلف کی طرف گئے اورخالد کشمیری اور عائشہ مسعود کی کتابیں مجھے گفٹ کیں۔ بس وہ لمحات کچھ حیرت انگیز تھے مجھے کتابیں پکڑتے ہوئے خیال آیا۔ صفیہ بس لوگ اتنا کچھ کر گئے اور تو نے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ بس اس دن سے کتاب لکھنی شروع کر دی ہے جو 1940 ءسے 2012 ء کے عرصہ پر محیط ہے۔ زیادہ باتیں تو مشاہدات کا حصہ ہیں لیکن کافی ریسرچ بھی کی ہے اور سب کچھ مختصر کر کے میں نے قارئین کے لئے پیش کر دیا ہے۔ میری طرف سے عالمی یوم خواتین پر یہ تحفہ اس لئے اہم ہے کہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مجید نظامی نے سعودی عرب میں پاکستانی خواتین کی تنظیم آل پاکستان ڈویلپمنٹ فورم جدہ کی معرفت سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کے کتنے ڈھیر سارے مسائل پاکستانی حکام سے مل کرائے ہیں۔ ویسے اس سے پہلے میری ایک کتاب ”عالم اسلام کا عظیم فرزند علامہ اقبال، بھی آ چکی ہے۔