محبت کا میں قائل ہو رہا ہوں
مہربانی پہ مائل ہو رہا ہوں
نہ گھبرائے مچلتی موج مجھ سے
بھنور تھا اب میں ساحل ہو رہا ہوں
جو چاہے اب مرے جذبوں سے کھیلے
جتا کر پیار میری جان لے لے
سجی ہے چاہنے والوں کی محفل
لگے ہیں ہر طرف چاہت کے میلے
فشارِ خون متوازن ہُوا ہے
کہ اُجلا سوچ کا آنگن ہُوا ہے
زمانہ اِس میں اپنا درد بھردے
فراخ اب عشق کا دامن ہُوا ہے
سویرے تتلیوں کو دیکھتا ہوں
حسیں رنگیں پروں کو دیکھتا ہوں
بہت سے اُڑ رہے ہیں سُوکھے پتے
مگر میں بس ہروں کو دیکھتا ہوں
گُلِ اُمید لہرانے لگے ہیں
پرندے جھوم کر گانے لگے ہیں
مجھے لگتی ہے ہر صبح سہانی
رگوں میں ولولے آنے لگے ہیں
میں کوئی کام کرنا چاہتا ہوں
کما کر نام مرنا چاہتا ہوں
بہت سے آگ کے دریا ہیں آگے
میں ان کے پار اُترنا چاہتا ہوں
یہ اُڑتا وقت پہچانے گا مجھ کو
زمانہ بخت ور مانے گا مجھ کو
ٹپکتی چھت تلے بیٹھا ہے دہقاں
یہ چھتری کی طرح تانے گا مجھ کو