میں بدل گیا ہوں

Mar 08, 2013

ریاض الرحمن ساغر

محبت کا میں قائل ہو رہا ہوں
مہربانی پہ مائل ہو رہا ہوں
نہ گھبرائے مچلتی موج مجھ سے
بھنور تھا اب میں ساحل ہو رہا ہوں
جو چاہے اب مرے جذبوں سے کھیلے
جتا کر پیار میری جان لے لے
سجی ہے چاہنے والوں کی محفل
لگے ہیں ہر طرف چاہت کے میلے
فشارِ خون متوازن ہُوا ہے
کہ اُجلا سوچ کا آنگن ہُوا ہے
زمانہ اِس میں اپنا درد بھردے
فراخ اب عشق کا دامن ہُوا ہے
سویرے تتلیوں کو دیکھتا ہوں
حسیں رنگیں پروں کو دیکھتا ہوں
بہت سے اُڑ رہے ہیں سُوکھے پتے
مگر میں بس ہروں کو دیکھتا ہوں
گُلِ اُمید لہرانے لگے ہیں
پرندے جھوم کر گانے لگے ہیں
مجھے لگتی ہے ہر صبح سہانی
رگوں میں ولولے آنے لگے ہیں
میں کوئی کام کرنا چاہتا ہوں
کما کر نام مرنا چاہتا ہوں
بہت سے آگ کے دریا ہیں آگے
میں ان کے پار اُترنا چاہتا ہوں
یہ اُڑتا وقت پہچانے گا مجھ کو
زمانہ بخت ور مانے گا مجھ کو
ٹپکتی چھت تلے بیٹھا ہے دہقاں
یہ چھتری کی طرح تانے گا مجھ کو

مزیدخبریں