تمام لیگی قائدین ملک اور سسٹم کے استحکام کی خاطر اپنی اناﺅں کی قربانی دیدیں

Mar 08, 2014

اداریہ

 وزیراعظم نوازشریف کا لیگی دھڑوں کے اتحاد کیلئے پیرپگارا کی تجویز پر مثبت ردعمل

وزیراعظم میاں نوازشریف نے پیر صاحب پگارا کی جانب سے پیش کی گئی لیگی دھڑے متحد کرنے کی تجویز منظور کرلی۔ اس سلسلہ میں پیرپگارا صبغت اللہ راشدی نے گزشتہ روز وزیراعظم میاں نوازشریف سے ملاقات کی جس میں انہوں نے مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو متحد کرنے کی تجویز دی۔ چنانچہ وزیراعظم نے لیگی دھڑوں کے اتحاد کیلئے رابطے کرنے کی ذمہ داری پیرپگارا کو ہی سونپ دی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پیرپگارا نے دوران ملاقات اہم فیصلوں میں حکومت کی جانب سے اعتماد میں نہ لئے جانے پر وزیراعظم کے روبرو شدید تحفظات کا بھی اظہار کیا جو وزیراعظم نے دور کرنے اور جلد سندھ کا دورہ کرکے اتحادیوں سے ملاقات کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ اس موقع پر پیرپگارا نے کراچی کی امن و امان کی صورتحال پر بھی وزیراعظم سے تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک کا امن کراچی کے ساتھ منسلک ہے‘ کراچی میں امن کیلئے حکومت اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پیر صاحب پگارا علی مردان شاہ نے تمام لیگی دھڑوں کے اتحاد و انضمام کے جس مشن کا بیڑہ اٹھا کر اس کیلئے اپنی سنجیدہ کوششیں بھی شروع کی ہوئی تھیں‘ انکے انتقال کے بعد انکے بیٹے اور جانشین پیرپگارا صبغت اللہ راشدی نے اس مشن کو آگے بڑھانے کیلئے شروع دن سے ہی اپنی کوششوں کا آغاز کردیا تھا اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ اب وہ اس مشن کو لے کر حکمران مسلم لیگ (ن) کے سربراہ وزیراعظم میاں نوازشریف کے پاس آئے ہیں تو انکی جانب سے بھی پہلی بار مسلم لیگوں کے اتحاد کیلئے مثبت ردعمل کا اظہار سامنے آیا ہے ورنہ تو اب تک میاں نوازشریف ہی کو مسلم لیگوں کے اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ قیام پاکستان کے بعد بھی اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروئی رہتی اور اس جماعت میں موجود مفاد پرست سیاست دان جنہیں قائداعظم خود اپنی زندگی میں کھوٹے سکے قرار دے چکے تھے‘ اپنے مفادات کے تابع اس جماعت کے حصوں بخروں میں تقسیم نہ کرتے تو یہ جماعت وطن عزیز کی مادر جماعت کی حیثیت سے بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کے وضع کردہ اصولوں اور فلاسفی کی بنیاد پر ملک کی تعمیر‘ ترقی اور استحکام میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی اور ملک کا جمہوری نظام بھی اتنا مستحکم ہو جاتا کہ کسی طالع آزماءجرنیل کے دل میں اپنے یکاو تنہا اقتدار کی خاطر ماورائے آئین اقدام کے تحت سسٹم کی بساط لپیٹنے کی جرا¿ت تو کجا‘ سوچ بھی پیدا نہ ہوتی مگر بدقسمتی سے قائداعظم کے انتقال کے بعد پاکستان کی اس خالق جمات کی صفوں میں شامل جاگیرداروں اور انگریز کے ٹوڈی مفاد پرست سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ باہم گٹھ جوڑ کرکے اپنے اقتداری مفادات کے حصول کیلئے خود کو اسٹیبلشمنٹ کا آلہ¿ کار بنالیا اور ماورائے آئین اقتدار کا خناس دل میں پالنے والے سکندر مرزا اور پھر ایوب خان کو اپنے کندھے پیش کرکے سسٹم پر شب خون مارنے کی بری روایت کی بنیاد رکھ دی۔ اس عمل میں جہاں ملک کی خالق جماعت گروہ بندی کا شکار ہو کر کمزور ہوئی‘ وہیں ملک کی نظریاتی بنیادوں کو قبول نہ کرنے یا بادل نخواستہ قبول کرنیوالے سیاسی اور دینی عناصر کو بھی ملک کی نظریاتی اساس پر اپنے اپنے ایجنڈے کے مطابق سوال اٹھانے اور اسے متنازعہ بنانے کا موقع مل گیا‘ جنہوں نے نظریہ¿ پاکستان کی بھی اپنے مفادات کے تحت غلط تاویلیں پیش کرنا شروع کر دیں‘ نتیجتاً جس مقصد کے تحت برصغیر کے مسلمانوں کی پرامن جدوجہد کے ذریعے قائداعظم نے قیام پاکستان کی شکل میں ایک الگ خطہ ارضی کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر کیا تھا‘ وہ نہ صرف ادھورا رہ گیا بلکہ ملک کے نظام اور وسائل پر مفاد پرستوں کے اس استحصالی ٹولے نے غلبہ پالیا جن سے نجات کیلئے تشکیل پاکستان کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ پاکستان کی خالق جماعت کی صفوں میں بانیانِ پاکستان کے عہد اور تعمیر وطن کیلئے انکے مشن سے بے وفائی کا جو سلسلہ قائداعظم کے انتقال کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا‘ وہ آج ملک کی بنیادیں ہلاتا اور جڑیں کاٹتا نظر آتا ہے۔
ہماری تاریخ کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ وطن عزیز کی خالق جماعت کو‘ جسے جمہوری نظام کی بقاءو استحکام کی ضمانت بننا چاہیے تھا‘ اپنے اپنے ناموں کے ساتھ حصوں بخروں میں تقسیم کرنیوالے بالشتیئے سیاست دانوں نے جرنیلی آمروں کی باندی بنا دیا اور ان سے حکومتی مفادات و مراعات کے حصول کی خاطر خالص مسلم لیگی حکومت کے قیام کے امکانات ہی ختم کر دیئے حالانکہ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ ایک پلیٹ فارم پر متحد رہتی تو اس سے ملک میں دو جماعتی نظام پروان چڑھ کر پارلیمانی جمہوریت کو ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی ضمانت بنا دیتا اور شروع دن سے ہی ملک کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈہ طے کرنیوالے ہمارے روایتی مکار دشمن بھارت کو بھی اپنی سازشیں پروان چڑھانے کی جرا¿ت نہ ہوتی‘ نتیجتاً ملک کے دولخت ہونے کا سانحہ بھی قوم کو نہ دیکھنا پڑتا۔ اگر ملک ایسی قباحتوں اور کمزوریوں سے دوچار ہوا ہے تو اسکی ذمہ داری پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنیوالے مفاد پرست سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
اسی تناظر میں ملک کی سلامتی‘ ترقی‘ استحکام اور اسکی نظریاتی اساس کو مضبوط بنانے کا درد رکھنے والے مسلم لیگی اکابرین نے ہر موقع‘ ہر مشکل وقت اور انتخابات کے ہر مرحلے میں دھڑوں میں تقسیم مسلم لیگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور متحد کرنے کی کوشش کی جن میں مرحوم پیرپگارا سید علی مردان شاہ پیش پیش رہے ہیں۔ اس مقصد کیلئے وہ اپنی پارٹی فنگشنل لیگ کی قیادت کی قربانی دینے کی پیشکش بھی کرتے رہے مگر 90ءکی دہائی سے اب تک دھڑوں میں تقسیم مسلم لیگوں کی قیادتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو مسلم لیگوں کے اتحاد کی کوئی قابل عمل تجویز بھی قبول نہیں ہوئی۔ اگر یہ تمام دھڑے ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہوتے تو جنرل ضیاءالحق کے اقتدار کے خاتمہ کے بعد اب تک بلاشرکتِ غیرے مسلم لیگ ہی کا اقتدار ہوتا جس میں شاید جنرل مشرف کی جرنیلی آمریت کی بھی نوبت نہ آتی مگر مشرف کے 12اکتوبر 1999ءوالے شب خون کے بعد چودھری برادران مسلم لیگ (ن) کی صف بندی میں میاں نوازشریف کی اپنے ساتھ بے وفائیوں کا گلہ کرتے ہوئے مشرف کی جرنیلی آمریت کی گود میں جا بیٹھے جبکہ اس کو جواز بنا کر میاں نوازشریف نے انہیں شجر ممنوعہ بنا دیا چنانچہ اس چپقلش میں مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد کی ہر کوشش سبوتاژ ہوتی رہی۔
پیر پگارا مرحوم تو مسلم لیگوں کے اتحاد کی خواہش دل میں بسائے اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے جبکہ یہی مشن اب انکے جانشین پیرپگارا صبغت اللہ راشدی نے سنبھال لیا ہے‘ اگر اب میاں نوازشریف کی جانب سے بھی مسلم لیگوں کے اتحاد سے متعلق انکی کاوش کا مثبت جواب ملا ہے تو اب تمام لیگی قائدین کو اپنی اپنی اناﺅں کے خول سے باہر آکر اور مفاد پرستانہ سیاست کو تج کر مسلم لیگ کے اتحاد کی خاطر ایک دوسرے کو کشادہ پیشانی سے قبول کرلینا چاہیے۔ آج وطن عزیز کو دہشت گردی اور توانائی کے بحران جیسے جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے‘ جو طالع آزماﺅں کو سسٹم کی بساط لپیٹنے کی راہ بھی دکھاتے نظر آتے ہیں‘ مسلم لیگوں کے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے اور اس بنیاد پر خالص مسلم لیگی حکومت کی تشکیل سے ملک کو درپیش ان تمام چیلنجوں سے آبرومندی کے ساتھ عہدہ برا¿ ہوا جا سکتا ہے۔ کیا ملک اور سسٹم کے استحکام کی خاطر لیگی قائدین اپنی جھوٹی اناﺅں کی قربانی بھی نہیں دے سکتے؟

مزیدخبریں