کچھ کام جو دستی دستی ہو جانے چاہئیں نہ جانے ہمارے حکومتی، پارلیمانی اور عدالتی ایوانوں میں کیوں تاخیر در تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔ اس سیدھے اور عملی سوال کا ایک جواب جو عام طور پر دے دیا جاتا ہے یا دیا جا سکتا ہے، وہ تو یہ ہے کہ نیت، ارادہ اور احساس ذمہ داری سے دوری بہت بڑی وجہ ہے۔ لیکن بدگمان خان کا گمان ہے کہ ایک وجہ اور بھی ہوتی ہے وہ بدنیتی پر مبنی ذاتی اور گروہی مفادات ہیں۔ یہ وجہ اس سے بھی زیادہ حقیقت بن کر اس وقت سامنے کھڑی ہو جاتی ہے جب دامن اور بند قبا داغدار ہوں اورکسی معاملے میں دستی دستی ہاتھ ڈالنے سے ان کے تار تار ہونے کا کھلا خطرہ ہو۔ جب یہ خطرہ ایک دو یا تین چار افراد کیلئے نہ ہو بلکہ اس تعدادکے ایک دو اور تین چار صفروں کے ساتھ بڑھ جانے اور بڑھتے ہی چلے جانے کا احتمال ہو تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ بدگمان خان کا کہنا ہے یہی معاملہ پارلیمنٹ لاجزکے بارے میں دیر سے بولے گئے اس سچ کے ساتھ ہوا ہے جس کا اتفاق سے سہرا جمشید دستی کے سر پر سجا ہے۔ وگرنہ سچی بات ہے کہ بھڑوں کے چھتے سے زیادہ خوفناکی کی وجہ سے اس جانب کوئی مولوی یا مفتی پھٹکا، نہ کسی بہادر پولیس افسر کو جرأت ہوئی کہ پالیمنٹ ہاؤس، وزیراعظم سیکرٹریٹ اور عدالت عظمیٰ ہی نہیں میڈیا کے بڑے بڑے مراکز کے سامنے جمشید دستی کا دل یہ سب کچھ دیکھ کر تو کڑھتا رہا مگر کسی نے آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا۔ قربان جائیں اس غض بصر سے کہ ہر کوئی اکبر الہ آبادی کی یاد کا ذریعہ بنا۔ اکبر نے کہا تھا پردہ ’’وہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا‘‘ لیکن یہاں معاملہ اس سے بھی آگے ہے کہ پردہ اداروں کی آنکھوں پر پڑا رہا۔
پھر اس کے بعد بھی اور سب کچھ ہوا مگر وہ نہ ہوا جس کا قانون اور اصول ضابطہ تقاضا کرتا ہے بلکہ میڈیا برداروں کی مدد سے جمشید دستی کی وہ ابلاغی دُھنائی کی گئی کہ الامان الحفیظ۔ گویا جرم کرنا ایک معزز ادارے کو غلاظتوں سے بھر دینا نہیں اس کی غلاظت کی نشاندہی کرنا ان کی صفائی کی جانب توجہ دلانا ٹھہرا۔ پاک وطن میں یہ مکروہ دھندا تو برسوں سے جاری ہیکہ مجرم معزز بنا دیے جاتے ہیں۔لیکن ایک یہ خوشگوار بات رہی کہ ذرائع ابلاغ کسی حد تک جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہتے رہے۔ لیکن اب کے برس معاملہ الٹا رہا۔ الیکٹرانک میڈیا کی ناجیوں اور پاجیوں کے پیروکاروں نے وہ دھما چوکڑی مچائی کہ جیسے جمشید دستی نے ان میں سے کسی کے گھر جاتے گٹر پر گر جانے یا رکشے سے الٹ جانے کی خبر عام کر دی ہو۔ ایسے عناصر کا پھر بھی ’’حق‘‘ بنتا ہے کہ وہ امریکی طرز پر ’’پری امپٹ‘‘ کریں کہ ہو سکتا کل کو دستی ان کو اسی پارلیمانی غلاظت میں لپیٹ دے۔ اس لیے بہتر تھا کہ دستی پر دستی چڑھ دوڑتے، لیکن میڈیا کے بہت سے حسین و جمیل چہرے خود کو اس موقع پر گدلا بنا کر پیش کرتے رہے، سمجھ سے باہر ہے۔ میڈیا اور سیاست کے بہت ساروں کے بارے ہر کوئی جانتا ہے انہیں جمشید دستی کی انگشت نمائی سے اپنی اپنی عزت خطرے میں لگنا فطری تھا، لیکن یہ عجب ہوا کہ میڈیا ان کے ذاتی بوجھ کو کندھا دینے کیلئے میدان میں کود پڑا۔
جمشید دستی کا طریقہ بُرا لگا یا بُرا تھا تو یہ مطلب نہیں کہ ایک سکہ بند عوامی مینڈیٹ رکھنے والے کی بات کا اتنا احترام بھی نہ کیا جائے کہ اس معاملے کی دیانتدارانہ تحقیقات کسی شور شرابے یا کسی شرابی کے شور کے بغیر شروع کر دی جائیں اور شراب خانہ خراب کو پارلیمنٹ لاجز سے باہر بہا دیا جائے۔ جناب سپیکر سردار ایاز صادق تو خود بڑے محتاط ہیں ان کے واقفان حال تو جانتے ہیں کہ سفارتی تقاریب میں بھی وہ ایسے کاموں میں کھلے عام پڑنے کے حق میں نہیں ہوتے۔ اس لئے انہیں چاہیے تھا کہ وہ سبھاو کے ساتھ پارلیمان پر پڑے چھینٹوں کو صاف کرنے کا اہتمام کرتے۔وزیراعظم کے بارے میں جناب سپیکر سے بھی زیادہ یقین ہے کہ وہ ان آلائشوں کے ساتھ کھلے یا چھپے ماحول دونوں میں ہمیشہ دور رہے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے اگر پارلیمان کی عزت بڑھے تو اچھا ہے۔ اس سے آئین اور قانون کی بالادستی قائم ہو گی جو جمہوری استحکام کی بنیاد بنتی ہے۔ آخر میں میڈیا کے دوستوں سے بھی دست بستہ التماس ہے کہ دستی کی خبر انہیں لینے دیں، جن کی بوتلیں ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔ آپ کا دل کیوں ٹوٹا جائے ہے۔ ناجیوں اور پاجیوں کے اپنے شوق ہیں۔ ان کے شوق کا طوق میڈیا کے گلے میں پڑا اچھا نہیں لگتا کہ میڈیا تو معاشرے کا واچ ڈاگ ہے نہ کہ معاشرے کے بڑوں کا وفادار۔ کیا خیال ہے؟