اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ/ ایجنسیاں) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ انہوں نے مارچ میں آپریشن کرنے کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا صرف یہ کہا ہے کہ اگر طالبان سے مذاکرات ناکام ہوگئے اور سیز فائر کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو پھر حکومت کے پاس آپریشن کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا ہماری کوشش اور خواہش ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہو ہم خون خرابہ نہیں چاہتے ہمارا مطمع نظر امن ہے مذاکرات کا سلسلہ لمبا عرصہ چلایا گیا اور اس کے ساتھ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بھی ہوئیں تو پھر ہم دیوار کے ساتھ لگ جائیں گے اور ہمارے پاس کیا آپشن رہ جائے گا مذاکراتی ٹیم کی مدد کے لیے ساری حکومتی مشینری موجود ہے، فوج کا کلیدی کردار ہے۔ ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جنگ بندی پر عمل طرفین کے خلوص پر منحصر ہے کہ کس طرح جنگ بندی جاری اور موثر رہتی ہے اب تک جنگ بندی کی خلاف ورزیاں بھی ہوئی ہیں روزانہ کوئی نہ کوئی سانحہ ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم خلوص کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہیں اور ہماری دعا ہے اور کوشش ہے اور خواہش ہے کہ مذاکرات کامیاب ہوں اور ان علاقوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امن قائم ہو جائے خدانخواستہ اگر مذاکرات کا سلسلہ لامتناہی بن جاتا ہے اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوتی یا اس کے کوئی مقاصد حاصل نہیں ہوتے تو پھر لازمی طور پر حکومت کے پاس کوئی آپشن نہیں رہے گا۔ آپریشن کا آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن ہماری آج بھی پہلی ترجیح مذاکرات ہیں مذاکرات کے ذریعہ امن کا قیام ہے ہم پورے خلوص کے ساتھ ان مذاکرات میں پہلے دن سے شریک ہیں لیکن دوسری طرف سے خلاف ورزی ہو رہی ہے کون کر رہا ہے کون نہیں کر رہا اس کی دوسرے فریق کو نشاندہی کرنی چاہیے اور ساتھ مذمت بھی، ہم مذاکراتی ٹیم میں شامل معتبر لوگوں کو پورا وقت دینا چاہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کو کامیابی سے آگے لے کر جائیں اور مذاکرات کو کامیابی سے ہمکنار کریں، ہمارا مقصد تو امن ہے ہم چاہتے ہیں امن قائم ہو اور اس کا مذاکرات سے قائم ہونا بہترین آپشن ہے۔ نئی مذاکراتی ٹیم کے حوالہ سے فیصلہ کرنا وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ کون سی ٹیم تشکیل کرتے ہیں ہر قسم کے مذاکرات بڑے صبر آزما ہوتے ہیں اس میں سب سے ضروری بات ہے کہ طرفین میں خلوص ہو طرفین پوری تندہی کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھائیں۔ ان کا کہنا تھا اگر اس دوران کوئی حملہ ہو جاتا ہے ہمارے شہر نشانہ بنتے ہیں ہمارے معصوم شہریوں کا خون بہایا جاتا ہے جس طرح اسلام آباد کچہری میں ہماری بچیوں کو اور عدلیہ کے نوجوان ارکان کو اور وکلاء کو نشانہ بنایا گیا ہے حکومت کب تک اس سلسلہ کو برداشت کر سکتی ہے جتنی جلدی مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہو اتنا ہی اچھا ہے دعا ہی کی جا سکتی ہے دعا کے ساتھ ہم کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ہماری کوششیں کامیاب ہوں فوج کی مذاکراتی عمل میں شمولیت کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا مذاکراتی ٹیم کی مدد کے لیے ساری حکومتی مشینری موجود ہوگی جس میں فوج بھی اور انٹیلی جنس کے ادارے شامل ہیں مذاکرات کے سلسلہ کو کامیاب بنانے کے لیے پوری حکومتی مشینری شامل ہو گی اس میں یقینی طورپر فوج کا کلیدی کردار ہے اگر سیز فائر کی خلاف ورزی ہوئی تو پھر ہم کسی بھی وقت آپریشن کر سکتے ہیں۔ دعا ہے مذاکرات کامیاب ہو جائیں، خدانخواستہ مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو فوجی آپریشن کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ دہشت گردی سے باز نہ آنے والوں کو طالبان روکیں اور ان کی نشاندہی کریں۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے میرا انٹرویو سیاق و سباق سے ہٹ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا میں فوج بھیجنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ مذاکرات صبر آزما ہوتے ہیں، نئی مذاکراتی ٹیم میں کون شامل ہو گا اس سے متعلق معلوم نہیں، ہم نے خلوص نیت سے مذاکرات شروع کئے۔ مذاکرات میں فوج کو شامل کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ دعا کے ساتھ کوشش بھی کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں وکلاء کو ٹارگٹ کیا گیا حکومت کب تک برداشت کرے گی؟ مذاکراتی حکمت عملی میں فوج کی مشاورت لے رہے ہیں۔ آئندہ مذاکراتی مرحلہ فوج کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہو گا۔ فوج حکومت کو بتائے گی کہ کس میں زیادہ نقصان ہے اور کس میں کم، فوج ہی حکومت کو بتائے گی کہ حکومت کے پاس کیا آپشن ہے۔ مذاکرات ناکام ہوئے تو دوسرے آپشن میں فوج کا ہی فرض ہے وہ آگے بڑھے۔ فوج کے الگ موقف ہونے کا تاثر قطعی غلط ہے۔ آئندہ کیلئے جو بھی فیصلے ہوں گے سیاسی قوتوں سے بھی مشاورت ہو گی۔ فوج کو ساتھ لے کر اتفاق رائے سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس سوال پر کہ قیدیوں کی رہائی اور فوج کے وزیرستان سے انخلاء کے مطالبے پر فوج رضامند ہو گی؟ قیدیوں کی رہائی پر ابھی کوئی رائے نہیں دے سکتا، محتاط رہوں گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا حکومت کی جانب سے طالبان کا دفاع کرنا مناسب ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیا میں آپ کو طالبان کا دفاع کرتے ہوئے نظر آ رہا ہوں۔ فوج سمیت تمام فریقین آئندہ مذاکراتی عمل سے متعلق ایک صفحے پر ہیں۔ فوج کے پاس جو اہم معلومات ہیں وہ کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں دریں اثنا غیر ملکی خبر ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا اب فوجی آپریشن میں مہینے نہیں لگیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد سرحد پر عسکریت پسندی کو تقویت ملے گی، یہ اتنی خوف ناک صورت حال ہے جس کے بارے میں ہم سوچنا بھی نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسندی جنگ بندی کی خلاف ورزی ہے، اگر جنگ بندی ہے تو پھر مکمل جنگ بندی ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ مکمل جنگ بندی کے بغیر مذاکرات جاری نہیں رکھ سکتے۔ یہ جواز قبول نہیں کہ دھماکے کسی اور گروپ نے کیے۔ اگرجنگ بندی ہے تو اس پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے۔ طالبان کے گڑھ میں فوجی آپریشن مہینوں نہیں دنوں کی دوری پر ہے۔ خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ امریکی انخلا اور کالعدم طالبان کے مضبوط ہونے کا انتظار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ طالبان جنگ بندی کی خلاف ورزی سے باز رہیں۔وزیر دفاع نے مزید کہا کہ شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ انہوں نے کہا امریکی انخلا کے بعد سرحد پار طالبان کے مضبوط ہونے کا خدشہ موجود ہے۔یہ طالبان افغانستان کے جنوبی اور مشرقی حصے میں اثرو رسوخ بڑھا سکتے ہیں۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان جنگ بندی کی خلاف ورزی سے باز رہیں، اگر خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رہا تو رواں ماہ طالبان کے خلاف بڑے پیمانے پرآپریشن شروع ہو سکتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ جنگ بندی کے بغیر مذاکرات کے متحمل نہیں ہو سکتے، طالبان کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ہے تو مکمل طور پر جنگ بندی ہونی چاہئے۔ اگر طالبان گروپس نے جنگ بندی کا احترام نہ کیا تو رواں ماہ مارچ میں ہی قبائلی علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع ہو سکتا ہے، اس سلسلے میں حکومت قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے اور شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔ اسلام آباد حملے میں ملوث احرارالہند نامی تنظیم کی کڑیاں پنجابی طالبان سے ملتی ہیں۔ افغانستان سے نیٹو فوج کے انخلا کے بعد طالبان کا مشرقی اور جنوبی علاقوں میں اثرورسوخ بڑھ جائے گا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے ، آپریشن آخری حربہ ہوگا ، حکومت نے پاک فوج کو تمام قسم کی کارروائیاں روکنے کی ہدایت کردی ہے، سعودی عرب سے کوئی دفاعی معاہدہ نہیں ہوا، سینئر فوجی افسر وہاں تربیت کیلئے موجود ہیں، شام میں ہمارا اسلحہ استعمال نہیں ہو گا۔ حکومت مذاکرات کے آ پشن پر سنجیدگی سے طالبان سے مذاکرات کررہی ہے اور خدانخواستہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں آپریشن آخری حربہ ہو گا، مذاکرات کے ساتھ ساتھ اگر دہشتگردی کی جاتی ہے تو اس کا بھرپور جواب دینگے، ائیر سٹرائیک سمیت دیگر تمام کارروائیاں روک دی گئی ہیں تاکہ مذاکرات سنجیدگی سے آگے بڑھ سکیں۔ سعودی عرب کو ہم نے کہا ہے کہ وہ ہم سے اسلحہ خریدیں جو پاکستان تیار کر رہا ہے جس میں سعودی عرب نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے مگر تاحال کوئی حتمی چیز نہیں ہوئی۔ سعودی عرب نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ وہ اپنی دفاعی ضروریات کیلئے پاکستان سے اسلحہ خریدے گا مگر وہ کہیں اور استعمال نہیں ہو گا۔
گوجرانوالہ+ چارسدہ (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا ہے کہ 10سال بھی آپریشن ہوتا رہا تو امن قائم نہیں ہو سکے گا، آپریشن میں ملزم بھاگ جائیں گے، معصوم لوگ مارے جائیں گے، خواجہ آصف کو اس طرح کے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہئے۔ خواجہ آصف کے لیڈر تو بڑے زور شور سے مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف تو لندن بھاگ جائیں گے اور یہاں خون خرابہ شروع ہو جائے گا۔ اب دونوں ٹیمیں ایک میز پر آمنے سامنے بات کریں گی، ہم لوگ بند دروازے کھولنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، طالبان کیخلاف آپریشن کے حامی لندن اور امریکہ جاکر بیٹھ جائیں گے۔ پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ فوج کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنانا ہمارا مطالبہ نہیں۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ فوج کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے تو ہمیں اعتراض نہیں، حکومتی کمیٹی کو شاید احساس ہو گیا ہے کہ ان کے پاس مکمل اختیار نہیں، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذاکراتی عمل میں ان اداروں کو شامل کیا جائے جو عملی فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ چیئرمین علماء کونسل حافظ طاہر اشرفی نے طالبان مذاکراتی کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع الحق اور مولانا یوسف سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران طالبان سے ہونے والے مذاکرات سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ مذاکراتی عمل آگے بڑھانے سے متعلق وزیراعظم کے خیالات خوش آئند ہیں۔ بہت سی قوتیں مذاکراتی عمل تباہ کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ مولانا سمیع الحق نے کہاکہ وزراء کو بیان دیتے ہوئے احتیاط برتنی چاہئے۔ حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے مذاکرات کے نئے میکنزم میں فوج کو شامل کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئی کمیٹی میں شامل ارکان کے پاس فیصلہ سازی کا بھی اختیار ہوگا جو کالعدم طالبان سے براہ راست مذاکرات کریگی۔ ایک انٹرویو میں عرفان صدیقی نے کہاکہ حکومتی کمیٹی ختم ہوگئی ہے، جس کی جگہ فیصلہ ساز کمیٹی بنائی جائے گی جسے طالبان سے براہ راست مذاکرات کا ٹاسک ملے گا، نئی کمیٹی میں شامل لوگ بااختیار ہوں گے جو فیصلہ سازی کا اختیار بھی رکھتے ہوں گے۔ نئی کمیٹی میں وہی لوگ ہوں گے جو با اختیار ہوں۔ عرفان صدیقی نے بتایا کہ طالبان پر واضح کردیا ہے کہ صرف مذمت کافی نہیں، انہیں دہشت گرد گروپس کی نشاندہی اور ان کے خلاف کارروائی بھی کرنا ہوگی۔ رابطہ کار کمیٹیوں نے اپنا کام مکمل کرلیا، اب حکومت اور طالبان میں مذاکرات براہ راست ہوں گے، جن کے آئندہ ہفتے سے شروع ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ رابطہ کار کمیٹیوں نے اپناکام مکمل کرلیا ہے، سرکاری کمیٹی کی کچھ خاص ضرورت باقی نہیں رہ گئی۔ وزیراعظم کی جانب سے فیصلہ ہونے تک یہ کمیٹی قائم رہے گی۔ مذاکراتی عمل کی تکمیل میں کتنا وقت لگ سکتا ہے؟ کے با رے پو چھے گئے ایک سوال کے جواب پر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ "کالعدم طالبان نے جنگ بندی ایک ماہ کیلئے کی تھی، لیکن اس میں 15 دن یا ایک ماہ کی توسیع بھی ممکن ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل نو ہماری خواہش پر ہو رہی ہے ہم رابطہ کار تھے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں اب حکومت اور طالبان کو براہ راست مذاکرات کرنے چاہئیں۔ ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل نو ہماری ہی خواہش پر ہورہی ہے۔ ہم شروع سے ہی کہہ رہے تھے کہ ہم رابطہ کار ہیں اور ہم کوشش کریں گے کہ مذاکرات شروع ہو جائیں ہماری یہ کوششیں کامیاب ہوئیں رابطے بن گئے مذاکرات شروع ہو گئے اور مذاکرات آئین کے تحت ہو رہے ہیں طالبان نے بغیر کسی شرط کے یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا حالانکہ پہلے انہوں نے تین شرائط رکھی تھیں مگر وہ شرائط نہیں مانی گئیں۔ دوسری طرف حکومت نے بھی جنگ بندی کا اعلان کیا ہماری کوششوں سے کچھ نہ کچھ بات آگے بڑھی ہے ابھی بھی اس میں کافی مرحلے ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اصل فریق حکومت اور اس کے ادارے ہیں جس میں فوج اور تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ بھی شامل ہے اب ان کے درمیان براہ راست مذاکرات ہونے چاہئیں۔ رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ عام تاثر یہی ہے کہ فوج مذاکرات کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ مکمل طور پر نہیں ہے یہ تاثر اس وقت ختم ہو گا جب فوج کے نمائندے بھی مذاکرات میں شامل ہوں گے پھر ہم کہہ سکیں گے کہ دونوں ایک پچ پر ہیں۔