اسلا م آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں بلوچستان بدامنی اور خضدار سے اجتماعی قبر سے 25نعشیں ملنے سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے بلوچستان حکومت سے واضح جواب طلب کیا ہے کہ بتایا جائے کہ گرفتار ایف سی اہلکاروں کے خلاف خود مقدمہ چلائے گی یا انہیں کورٹ مارشل کے لئے آرمی کے حوالے کیا جائے گا۔ عدالت نے بلوچستان حکومت سے کہا ہے کہ وہ بتائے کہ ایف سی اور ایم آئی کے خلا ف خود کارروائی کرے گی یا ان کے خلاف وفاق کارروائی کرے گا۔ عدالت نے ایف سی کے وکیل عرفان، سیکرٹری ہوم اور ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کو کہا ہے کہ وہ معاملے پر ایک ہفتے کے اندر میٹنگ کر یں جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اس حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے لاپتہ افراد سے متعلق جج محمد نور کی سربراہی میں قائم ٹربیونل کو کام مکمل کرنے کیلئے مزید دو ماہ کی مہلت فراہم کر دی ہے۔ ایف سی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر تمام ادارے بلوچستان سے تعاون کیلئے تیار ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ ایف سی کے اہلکاروں پر مقدمات درج ہیںآرمی نے ان اہلکاروں پر آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کے لئے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا ہے لیکن ابھی تک بلوچستان حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا آرمی کمانڈر اگر چاہے تو کیس کو ٹیک اپ کر سکتا ہے وگرنہ معاملہ سویلین عدالت میں چلے گا۔ عدالت نے نصراللہ بلوچ کی جانب سے فراہم کی گئی لسٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا جبکہ خضدار میں ملنے والی لاشوں کی تعداد کے حوالے سے نصراللہ بلوچ کو بلوچستان ہائیکورٹ کے جج محمد نور کی سربراہی میں کمشن سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ہوم سیکرٹری بلوچستان کو نصراللہ بلوچ کو سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔ ڈی سی خضدار عبدالوحید شاہ نے بتایا کہ نصر اللہ بلوچ قبروں کے حوالے سے غلط بیانی کر رہے ہیں ہم نے میڈیا ٹیم کے ساتھ وہاں کا وزٹ کیا ہے اور اجتماعی قبر سے 25نہیں بلکہ 11لاشیں ملیں ہیں اس پر جسٹس امیر ہانی مسلم کا کہنا تھا کہ جب گیارہ لاشیں مل سکتی ہیں تو اُن کی تعداد پچیس کیوں نہیں ہوسکتی معاملے کو کیوں پیچیدہ بنایا جارہا ہے۔ ڈی سی خضدار نے کہا کہ ملنے والی نعشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کیلئے سیمپل لاہور فرانزنک لیباٹری کو بھیج دیئے گئے ہیں مگر لیبارٹری کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ رپورٹ کی تیاری میں چار پانچ ماہ لگ سکتے ہیں جبکہ ذمہ داروں کے تعین کیلئے جوڈیشل انکوائری میں بھی 2ماہ لگ سکتے ہیں۔ ہم نے علاقے میں اعلانات کروائے ہیں کہ اگر کوئی لاپتہ فرد کے حوالے سے اپنا ڈی این اے سیمپل دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔ ڈی جی سی آئی ڈی امتیاز شاہ نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود ایف سی کے اہلکاروں کو ابھی تک سی آئی ڈی کے سامنے پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ آن لائن کے مطابق جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ جرم کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی خواہ اس کا تعلق فوج سے ہو یا کسی اور ادارے سے ہو۔ پرویز مشرف کا معاملہ ان آرمی افسران سے الگ نوعیت کا حامل ہے۔ حاضر سروس آرمی افسران کے خلاف عام عدالت کارروائی کا اختیار نہیں رکھتی۔ سی آئی ڈی بھی صرف تحقیقات کر رہی ہے ٹرائل کا حق سیشن کورٹ سمیت دوسری عدالت کو نہیں۔ ڈیپوٹیشن پر آئے آرمی افسران کے خلاف کارروائی ان کے متعلقہ فورمز پر ہی ہوسکتی ہے۔ اجتماعی قبروں کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ لوگوں کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے مگر حالات یہ ہیں کہ بلوچستان میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت تحفظ کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد اور بلوچستان کے حالات میں حکومت کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے حکومت پہلے کچھ نہیں کرتی جیسے ہی عدالت حکم دیتی ہے اسے ہوش آجاتا ہے ،کیا حکومت نے کوئی کام اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بھی کرنا ہے یا نہیں۔