میں نے بہت دردمندی اور ہمدردی سے لکھا تھا کہ اس قوم کی عزت مندی خوشحالی ترقی، وقار اور اعتبار کے لئے ریکارڈ بنائے جائیں۔ دنیا والے اسے تسلیم کریں گے اور پاکستانی اس کارنامے کو محسوس کریں گے۔ شہباز شریف اپنے طور پر فیصلے کریں ان کی استعداد کار کا ہر ایک معترف ہے مگر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ بے کار کاموں کو کارنامہ بنانے کی کوشش ان سے کرائی جا رہی ہے۔ مجھے بہت دوستوں نے فون کئے، رابطہ کیا۔ یہ بھی ایک ریکارڈ بن سکتا ہے مگر اس ریکارڈ سے کیا فائدہ ہو گا؟
برادرم حافظ امیر علی اعوان نے کہا ہے کہ اگر بہت سے آدمیوں کا انسانی جھنڈا لہرانا یا قومی ترانہ گانا ایک ریکارڈ ہے تو دوست ملک چین اس حوالے سے کئی ریکارڈ بنا سکتا ہے۔ اس کی آبادی ارب سے زیادہ ہے۔ وہاں خواتین و حضرات طلبہ و طالبات سائیکلوں پر آ جائیں گے۔ ہماری انتظامیہ رانا مشہود کی نگرانی میں بسوں کے اندر زبردستی بھر بھر کے نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو لائی۔ پارکنگ کا مسئلہ بن گیا، پٹرول بہت خرچ ہوا۔ پالوشن (آلودگی) الگ ہوئی۔ پھر ایک معصوم موت کے مارے ریکارڈ میکنگ تقریب ملتوی ہوئی۔ یہ بھی ریکارڈ ہے۔ چین میں اس طرح دو ریکارڈ بن جائیں گے۔ سائیکلسٹ چین میں زیادہ معزز شہری ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بے چارے کمی کمین غریب شریب اور ووٹر؟ ووٹر ہمارے ملک میں کبھی سپورٹر نہیں بن سکتے۔ سپورٹر تو حکمرانوں سے کبھی کبھی مل لیتے ہیں ووٹر کبھی نہیں مل سکتے۔
بہت نوجوان طلبہ و طالبات مل کر ایسے کئی ریکارڈ ہمسایہ ملک بھارت میں بنائے جا سکتے ہیں۔ مگر بھارت ہم سے خوش نہیں ہو گا۔ ہماری حکومت بھارت جا کے کرکٹ ہاری تھی۔ انہیں بڑا مزا آیا تھا۔ اب بنگلہ دیش میں بھارت ہم سے کرکٹ میں ہار گیا ہے تو لوگ خوش ہوئے۔ شکر کریں کہ بنگلہ دیش میں ہمارا کوئی حکمران اس موقع پر گرائونڈ میں موجود نہ تھا۔ وزیراعظم گیلانی وزیر داخلہ رحمان ملک آج تک بھارت سے ہارنے کا ذکر اپنی اپنی سیاسی کامیابیوں کے طور پر کرتے ہیں۔ رانا مشہود کے لئے سوچنے کی بات ہے کہ بھارت بھی آج کل ریکارڈ بنانے کے مقابلے میں نہیں آیا۔
ہم نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دینے کے خلاف نہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ سب بچوں بچیوں کو لیپ ٹاپ دیں تاکہ کوئی تفریق نہ رہے۔ نوجوانوں کو قرضہ دیں۔ جس کام کے لئے قرعہ اندازی کی جائے ہم اسے عوامی نہیں سمجھتے۔ کاروباری سمجھتے ہیں۔ اب کاروباری معاملات کو سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔
پاکستان نے نقل مارنے کی ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کی ہے کہ اگلے پندرہ سال تک کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ پندرہ سال تک باری باری یہ نظام حکومت قائم رہے گا۔ اگر لوگ اور متعلقہ لوگ اتنے بیزار ہوئے کہ تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت نہ آ گئی تو انشااللہ حالات اور خیالات یہی رہیں گے۔ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں کو بلا کے نقل مارنے کے حیرت انگیز اور کامیاب طریقے بھی دکھائے جا سکتے ہیں۔ جرم کرنے اور ظلم کرنے کے ایسے ایسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں کہ ورلڈ ریکارڈ والے دم بخود رہ جائیں گے۔ اس کو روکنا ہماری حکومتوں کے بس میں نہیں۔ امتحانی پرچہ آئوٹ ہونے کے حوالے سے بھی ہم نمبر ون ہیں۔ ہمیں صرف کرکٹ کے میدان میں شاہد آفریدی کے آئوٹ ہونے کی فکر رہتی ہے۔ ہمیں گیٹ آئوٹ ہونے کی بھی پروا نہیں ہے۔ حکمران اور افسران کسی کو کمرے کے اندر داخل ہونے دیں گے تو گیٹ آئوٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہو گا؟
ہم بہت زبردست قوم ہیں۔ ایک شخص گدھے پر سر کے بل گھنٹوں تک کھڑا ہو سکتا ہے اور کمال یہ ہے کہ گدھا بھی اپنی جگہ سے ہلتا نہیں ہے۔ اتنی کھلی اور بے آب و گیاہ زمین کے ہوتے ہوئے گدھے پر یہ کرتب دکھانا گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں کو حیرت سے بے ہوش کرنے کے لئے کافی ہے۔ ریکارڈ قائم کرنے کے لئے ہم گینز بک والوں کوبڑے چائو سے بلاتے ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ ہمارے تعلیمی نصاب میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو شامل کر لیا جائے۔ ورنہ اسے پڑھنے کی کوئی تکلیف نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں پڑھنے لکھنے کی روایت تو خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ میں نے ایک دفعہ شرط لگائی تھی کہ اگر اسمبلی میں کوئی ممبر ثابت کر دے کہ اس نے کوئی بھی کتاب پوری پڑھی ہے تو کتاب سے عشق کے باوجود میں کتاب پڑھنا چھوڑ دوں گا۔ میں بے فکر ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر سیاست چھوڑ دینے کا اعلان کرنے والوں نے اب تک کچھ نہیں چھوڑا۔ انہوں نے ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔
برادرم ناصر اقبال خان جذباتی تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں مظلوم لوگوں کو معاشرہ بھی معاف نہیں کرتا۔ چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو گھر والوں کا گھر سے نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ بچی کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ مظلوم لوگ ہمیشہ مظلوم رہتے ہیں۔ ظالم ہمیشہ ظالم رہتے ہیں۔ ظالم اور حاکم ہم قافیہ ہیں ہم معانی بھی بن گئے ہیں۔ ناصر اقبال کے بقول یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ ریکارڈ حاکموں کے لئے اور محکوموں کے لئے آف دی ریکارڈ ہوتا ہے۔
حمزہ شہباز جوان ہے۔ اس سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کچھ کر دکھائے مگر اسے رانا مشہود جیسے وزیر شذیر اور مشیر وغیرہ ملے ہیں۔
میری ملاقات شاندار ریکارڈ بنانے والے کرکٹر عامر سہیل سے ہوئی۔ وہ کرکٹ سے زندگی کے میدان میں بھی بہت جذبے سے آیا ہے۔ مرد میدان بننے کا ذوق و شوق اسے بے قرار رکھتا ہے۔ یہ جو یوتھ فیسٹول کے تحت معاملات چلائے جا رہے ہیں اس کا سب پروگرام اور منصوبہ بندی عامر سہیل نے بنا کے دی تھی مگر مقربین نے ورلڈ ریکارڈ بنانے کا بے کار سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کام کے آغاز میں عامر سہیل نے سکیم بنا کے دی تھی۔ اب وہ کہیں نہیں ہے۔ اس کی گفتگو میں ایک آرزو تڑپتی ہے۔ انہوں نے علم کے ساتھ ہنر کی اہمیت پر زور دیا۔ جس سے عام لوگوں اور ذوق و شوق والے جوانوں کو فائدہ ہو ایسا کوئی کام حکمرانوں کو نہیں کرنے دیا جائے گا۔ میں نے تو ایک کالم میں سب نوجوان سیاستدانوں سے گذارش کی تھی کہ وہ آگے بڑھیں اور مل کر آگے بڑھیں۔ حمزہ شہباز، مونس الٰہی، بلاول بھٹو زرداری، فاطمہ حسن، عبداللہ گل اور کئی دوسرے جوان مل کر اس بدقسمت قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکال سکتے ہیں۔ یہ بھی ریکارڈ ہے کہ اس ملک میں سو فیصد شرح خواندگی ہو۔ سب کو پینے کا صاف پانی ملے۔ اس حوالے سے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی کوشش مسلم لیگ ن کی حکومت کی نیک نامی ہے۔ میٹرو بس کے لئے سڑک ریکارڈ مدت میں شہباز شریف نے بنائی۔ ایک ریکارڈ یہ بھی ہو کہ سارے صوبے کی سڑکیں شاندار ہو جائیں۔ دانش سکول بھی ٹھیک ہیں مگر پنجاب بلکہ پاکستان کا ہر سکول بہترین ہو جائے۔
1122 کی ایمرجنسی کو یاد کیا جاتا ہے۔ تو یہ خدمت کی ایک مثال ہے۔ مجھے تو کسی حکومت کے لئے کسی خدمت کی ایسی مثال نظر نہیں آتی۔ سیاسی رواداری اور وضعداری ہی کی کوئی مثال قائم کر دی جائے۔ برادرم ناصر اقبال کا یہ جملہ درمندی کا عکاس ہے۔ ہمیں انصاف نہیں چاہئے۔ تحفظ چاہئے۔ انصاف بھی نہیں ملتا، تحفظ بھی نہیں۔ تحفظ انصاف کی ضمانت ہے۔
ریکارڈ پر ریکارڈ
Mar 08, 2014