صدیوں پہلے جب مادر سری معاشرے میں مرد نے طاقت کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا ہو گا تو یقیناً آزادی کی حقیقی روح کو پہچاننے کے لئے اسے زمانے لگے ہوں گے۔ تبھی تو اس نے جانا کہ طاقتور ہونے کے لئے معاشی طور پر مضبوط ہونا، ذرائع پیداوار اور وسائل پر قابض ہونا ہی کافی نہیں بلکہ صنف مخالف کو ذہنی جذباتی نفسیاتی و حسیاتی طور پر تابع کرنا ہی دراصل حقیقی طاقت کا منبع ہے۔ طاقت کو دیرپا بنانے کے لئے مخالف کی صلاحیتوں کو سلب کرنا اور سوچ پر پہرے بٹھانا اسے محکوم بنانے کے مترادف ہے۔ تاریخ بتاتی ہے مرد کو طاقت کے حصول میں صدیاں لگیں اور پھر جب اس نے معاشرے کو مرد کا معاشرہ بنایا تو اسکے اندر کہیں نہ کہیں یہ خوف ضرور بیٹھا تھا کہ کہیں اس کی ذرا سی کوتاہی سے طاقت کا توازن بگڑنے نہ لگے شاید یہی وہ ڈر تھا جس کی وجہ سے اس نے پوری قوت سے صنف مخالف کو مسلسل بے مول مشقت اور ذہنی اذیت میں مبتلا رکھنے کا فارمولا ایجاد کیا۔ پھر بھیڑ بکریوں کی طرح عورت کی بھی خریدوفروخت ہونے لگی، جنگوں میں مال غنیمت کے طور پر فاتح اسکے جسم و جان سے سوچ اور فکر کشید کرتے رہے۔ کنیزوں اور لونڈیوں کے دور سے گزرنے والی عورت کو اپنے ہونے کا ثبوت اور اپنی پہچان کیلئے زمانے لگے۔ کہتے ہیں ’’ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو تھم جاتا ہے‘‘! بس یہی اپنی ذ ات کے کچلے جانے کا عمل روکنے کیلئے آخر کار تقریباً ایک صدی پہلے عورت نے اپنی تمام تر قوتوں کو یکجا کرکے خود کو انسان تسلیم کروانے کے حق میں آواز بلند کی۔ بنیادی انسانی حقوق کا مساویانہ حصول ہی دراصل حقوق نسواں کی تحریک بنا۔ محنت کش عورت نے سوچ کی شاہراہ پر چلنے والی عورت کے ساتھ قدم بہ قدم چلنا شروع کیا اور معاشرے میں اپنے ساتھ ہونیوالے امتیازی سلوک، معاشرتی، معاشی، تعلیمی ثقافتی اور جذباتی سطح پر مروج غیر امتیازی ہتک آمیز رویوں کو برداشت کرنے سے انکار کیا۔ ظلم و جبر اور ناانصافیوں کے خلاف آواز ہی نے قدروں کی پاسداری کرنے والوں کو مائل کیا کہ دنیا میں زندگی اور انسانی بقا کی اصل وجہ یعنی عورت کو غیر انسانی رویوں اور سلوک سے نجات ہونی چاہئے اسی سوچ نے دنیا بھر کے لوگوں کو مجبور کیا کہ 8 مارچ کو عورتوں کے حقوق کے حوالے سے یادگار بنایا جائے۔ اس روز کے تناظر میں پاکستانی عورت کو میسر حقوق اور حیثیت و مرتبہ حیرت انگیز طور پر باعث شرم ہے۔ جنیوا کی گلوبل جینڈر گیلپ رپورٹ کے مطابق عورتوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اور معاشرے میں اسے میسر سہولیات و توقیر میں پاکستان دنیا بھر کے 142 ممالک میں سے 141ویں نمبر پر آتا ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی عورت کے حقوق کی بات ہوتی ہے تو مخصوص سوچ متحرک ہو کر مغرب کی عورت کے حوالے سے ایک تصوراتی بدرنگی صورت دکھا کر یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ مغرب اور ترقی یافتہ دنیا کی عورت آزادی کے نام پر ذلت و محکومی کی زندگی گزار رہی ہے کاش جنت کی سیر کروانے والے ملمع سازوں میں یہ جرات ہو کہ ان معاشروں میں عورت کو میسر ذہنی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور جذباتی آسودگی کو خاص عینک کے شیشوں سے دیکھنے کی بجائے اپنے ہاں کی عورت کے ساتھ ہونے والے پرتشدد رویوں کو دیکھیں۔ ہماری عورت گھریلو تشدد سے لے کر معاشرتی تذلیل تک، تعلیمی اداروں سے لے کر نوکری کے دفاتر تک، سیاسی پلیٹ فارم سے لے کر حکومتی اداروں تک، امتیازی رویوں اور سلوک کو برداشت کرتی ہے۔ مساوی حقوق کے حصول کی خاطر بلند ہونے والی آواز اس کے لئے زندگی کا روگ بن جاتی ہے۔ اگرچہ ہمارا آئین عورت کے حقوق کے تحفظ کے لئے گونگا نہیں لیکن عزت کے نام پر قتل، کاروکاری، جائیداد کی خاطر بلاوجہ بے دخلی، اپنی مرضی کی زندگی کے عوض انصاف کے کٹہروں کے سامنے پتھر مار مار کر ہلاکت۔ ہمارے ہاں صغری امام جیسی سیاسی بصیرت والی عورت اسمبلیوں میں عورتوں کے حقوق کے لئے ترمیمات ہی پیش کرتی رہ جاتی ہے جب کہ ہماری تحریک و کارکردگی فقط اشتہاری مہمات تک محدود رہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو عورت اپنے دھرنوں، ٹیلی فونک جلسوں اور انکم سپورٹ کے ذریعے انگوٹھا چھاپنے کیلئے درکار ہے ورنہ ہمارے گھروں سے لیکر گلیوں بازاروں اور اداروں تک عورت کو اپنی عزت نفس کے تقدس کیلئے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ کچھ وہ خود ہی جانتی ہے۔ کاش کہ آج کا 8 مارچ ہماری حکومتوں، سیاسی جماعتوں اور مردانہ معاشرے کیلئے ایک عہد کا دن بن جائے کہ معاشرے کو خوش رنگ بنانے والی عورت کو بدرنگی بنانے کا عمل متروک ہو اور قوم کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے والی عورت کو مسلسل ذہنی اذیت و کرب اور امتیازی رویوں کی ذلت سے نکال کر مساوی مواقع کی آسودہ شاہراہ پر چلنے کی اجازت دے دی جائے کیونکہ دل کی آنکھ سے دیکھنے والی عورت کے جب حواس قائم ہوں گے تو وہ اعصابی جدل بھی جیت جائے گی۔