شریف برادران کے لئے سینٹ کے الیکشن چھوڑ کر سعودی عرب جانے پر بہت اعتراض ہوئے۔ یہ کسی حد تک درست بھی تھے۔ مگر ان کی بے نیازی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ پنجاب اور وفاق کے نتائج بھی ان کی توقع کے مطابق آئے۔ ان کی موجودگی بہرحال ضروری تھی۔ ان کے اپنے لئے بھی اچھا ہوتا۔ باقی تین صوبوں کے لئے بھی شاید کچھ مختلف ہوتا۔ فاٹا کے لئے وہ انتظام کر کے گئے تھے مگر اس کے باوجود سینٹ کی چیئرمینی پر میچ پڑے گا۔ نواز شریف کو میچ فکسنگ کا بہت تجربہ ہے؟ نواز شریف اور اسحاق ڈار تو نہ آئے مگر شہباز شریف آ گئے۔ انہوں نے ووٹ بھی ڈالا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے افضل چن کو 27 ووٹ پڑ گئے۔ اس نے ہارنے کے باوجود جیتنے والے آدمی کی طرح کہا کہ مجھے یہ ووٹ کہاں سے پڑ گئے؟ اس پر چودھری پرویز الٰہی کا تبصرہ بہت دلچسپ ہے۔ ”شہباز شریف کو عمرہ چھوڑ کر آنا پڑا۔ اپنے لوگوں پر اعتماد ہوتا تو عمرہ چھوڑ کر نہ آتے۔“ ایک سیاستدان کا معاملہ کتنا نازک ہے۔ اسے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے۔ سینٹ کے الیکشن کو اب چھوڑ دو تو یہ مناسب نہیں ہے۔ عمرہ چھوڑ کر آ جاﺅ تو یہ بھی مناسب نہیں ہے۔ سعودی عرب کا دورہ دو چار دن بعد کر لیا جاتا تو ٹھیک تھا۔ ہر کام اپنے وقت پر مناسب ہوتا ہے۔ صحیح کام بھی بعد از وقت اور قبل از وقت غلط ہو جاتا ہے۔ سیاست تو موقع اور ضرورت کے مطابق اقدام کرنے کا نام ہے۔ اس میں مفاد بھی شامل کر لیا جائے تو ٹھیک ہے۔
شہباز شریف نے پارٹی کے ایک اہم آدمی کو کہا ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں کہ کون آدمی ہیں جنہوں نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔ عمرے تو شریف فیملی نے بہت کئے ہیں۔ 9 سال کی جلاوطنی میں وہ جدہ کے سرور محل میں مقیم رہے جہاں سے مکہ مکرمہ چند منٹوں کے فاصلے پر ہے مگر پاکستانی سیاست میں یہ معروف بات ہے کہ عمرہ اقتدار کی عمر بڑھا دیتا ہے۔ شہباز شریف کو یہ فکر نہیں تو نواز شریف اور اسحاق ڈار کو کیا خطرہ ہے۔ خطرے اور خوف میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں حکومت کرنے کے لئے کسی ڈھنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر بھی حکومت کے لئے حکمت بڑی ضروری ہے۔ میرا یہ جملہ بہت دوستوں نے پسند کیا تھا کہ ہمارے حکمران حکمت عملی کو بھی حکومت عملی بنا دیتے ہیں۔ میرا خیال ہے اب اس بات کو جانے دیں کہ کس آدمی نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے۔ پنجاب میں سیٹیں تو ساری کی ساری ن لیگ کو مل گئی ہیں۔ البتہ بلوچستان میں زیادہ گڑ بڑ ہوئی ہے۔ وہاں تو ن لیگ کا ایک اہم آدمی ہار گیا ہے۔ شریف برادران کو بھی اپنے لوگوں کے ساتھ انصاف اور محبت سے معاملات کو چلانا چاہئے۔ بلوچستان میں جمالی صاحب کا معاملہ بھی بڑا گھمبیر ہو گیا ہے۔ خیبر پختون خواہ میں پیر صابر شاہ کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی ہے۔ سب سے بڑی زیادتی میرے خیال کے مطابق ظفر علی شاہ سے ہوئی ہے۔ جن تین سندھیوں کو پنجاب سے جتوایا گیا ہے وہ کون ہیں اور ان کی ”خدمات“ کیا ہیں؟ ”صدر“ زرداری نے رحمن ملک اور ڈاکٹر قیوم سومرو کو سنیٹر بنوایا ہے تو ان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان سے ”صدر“ زرداری کو کیا فائدے پہنچے ہیں۔ حیرت ہے کہ ”صدر“ کی نظر منور انجم پر کیوں نہیں پڑی۔ بی بی کے زمانے میں وہ اور سجاد بخاری پیپلز پارٹی کے لئے بہت سرگرم اور مستعد تھے۔ ایک بڑا کام اپنے عزیز ریاض شیخ کے لئے اور عزیزہ شرمیلا فاروقی کے لئے صدر زرداری نے کیا ہے کہ ریاض شیخ کے بیٹے ہشام ریاض کی شادی شرمیلا سے کروائی ہے۔ ایک شادی شہید بی بی صاحبہ نے بھی ناہید خان اور ڈاکٹر صفدر عباسی کی کرائی تھی۔ دونوں ”صدر“ زرداری کی ناراضگی اور بے نیازی کے باوجود راضی خوشی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
باغی اور منحرف ممبران اسمبلی کے لئے کچھ معلوم بھی ہو جائے تو کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ یہی لوگ پھر پنجاب اسمبلی کا ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر اپنا ووٹ بیچیں گے۔ ہماری جمہوریت میں یہ بات ایک روٹین ہے۔ سب پارٹی مالکان اپنی اپنی سیاسی پارٹی کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت کا یہ منظر دیکھیں۔ ”صدر“ زرداری اور صدر ممنون کا موازنہ کر کے دیکھ لیں۔ ”صدر“ زرداری پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ نواز شریف ن لیگ کے صدر ہیں اور تاحیات رہیں گے۔
اگر خفیہ رائے دہی سینٹ کے الیکشن کے لئے ہے تو پھر اسے ممبران کی صوابدید پر چھوڑ دیں۔ پارٹی مالکان اب اپنے ممبران کے ضمیروں کے بھی مالک ہیں۔ پہلی ”ضمیر فروشی“ تو یہی ہے۔ کیا اس طرح کوئی بھی اہل اور اہل دل آدمی سنیٹر بن سکتا ہے؟ سیاسی پارٹیوں کے ڈسپلن کی اتنی پابندی کیا ضروری ہے۔ تو پھر پارٹی مالک سے وفا ہی ہماری سیاست اور جمہوریت ہے۔
اگر یہ بات اٹھارویں ترمیم کے بعد پارٹی ڈکٹیٹر بن جانے والوں کو منظور نہیں ہے تو پھر آسان طریقہ یہ ہے کہ عورتوں کی مخصوص نشستوں کی طرح سینٹ میں بھی اپنی اپنی پارٹی کی تعداد کے مطابق ہر پارٹی مالک کو نشستیں دے دی جائیں۔ آخر ”صدر“ زرداری کے زمانے میں مفاہمتی سیاست کے تحت بلامقابلہ سنیٹرز بن گئے تھے۔ اب بھی سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے دو دو آدمی بلامقابلہ ہو گئے ہیں اور باقی بھی آسانی سے الیکٹ یعنی سلیکٹ ہو گئے ہیں۔
مخصوص نشستوں پر خواتین ارکان نے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا تو آج تک سینٹ والوں نے کون سا ناقابل فراموش کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ سینٹ میں مختلف دل و دماغ کے لوگ ہونگے تو کوئی قانون حکومتی پارٹی کی مرضی سے پاس نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے تجزیاتی سیاست کرنے والے وطن دوست موجود ہونگے۔
ایک بہت بامعنی اور خوبصورت نام کے شعری مجموعے ”غرور عشق“ کی تقریب پذیرائی ہوئی معروف شاعر ادبی اور سماجی شخصیت ڈاکٹر افتخار بخاری سول سوسائٹی میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ اس تقریب میں مقررین کی تعداد زیادہ تھی اور آخر وقت تک بڑھتی چلی گئی شعر و ادب کے علاوہ وکالت اور سماجی شعبوں میں ان کی بہت جان پہچان ہے۔ ایک بہت معروف این جی او کی ڈائریکٹر اور بہت جانی پہچانی شخصیت آئمہ محمود نے بہت دلکشی سے مختصر گفتگو کی۔ افتخار بخاری کی شخصیت اور شاعری کو سراہا۔ نامور شاعرہ اور بہت سے تخلیقی اور دلکش گفتگو کرنیوالی صوفیہ بیدار نے بہت انوکھی گفتگو کی جس کی تعریف سٹیج پرموجود جنرل حمید گل نے بھی کی۔ شعر و ادب کے سب جینوئن لوگ صوفیہ کے قائل ہیں۔
جنرل حمید گل نے سیاسی گفتگو کی۔ سیاست کو ادب بنانے کی کوشش کی۔ اس پر معروف مسیحی شاعرکنول فیروزنے اعتراض بھی کیا جو کسی حد تک جائزتھا مگر لوگوں نے جنرل صاحب کو پسندیدگی سے سنا۔ جنرل نے مزاحیہ اور غیر متعلق اشعار بھی پڑھے جو خیالی جنت کے منظرکے لئے تھے۔ ”وحشی ملا حوروں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔“ میں نے کہا شاعر کو حوریں بھی پسند ہیں مگرشعروادب کا اصل کردار تو ہیر ہے۔ ہیر ہیرو ہے۔ مگر ہماری عورتوں کو حور بننے کا بہت شوق ہے۔ اکثر اوقات بیوٹی پارلر سے کسی فنکشن میں پہنچتی ہیں۔
کتاب کے نام ”غرور عشق“ کے لئے سب مقررین نے کوئی نہ کوئی بات کی۔ میری تقریرکے دوران ایک خاتون نے ”غرور حسن“ کی بات بھی کی۔ میں نے کہا کہ میری نظر اب آپ پر پڑی ہے۔ غرور حسن کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ حیرت ہے کہ اس تقریب میں ایڈووکیٹ مقررین نے بہت دانشورانہ گفتگو کی۔ محمود الحسن گیلانی تو خیر خود بھی شاعر اور ادیب ہیں نثار صفدر حامد اور احمد اویس نے بہت اچھی گفتگو کی۔ ڈاکٹر عامر شہزاد ڈاکٹر اختر شمار نجیب احمد نے شعر و ادب کی نمائندگی کی۔ اس تقریب کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ استاد محترم المقام ڈاکٹر پروفیسر خواجہ زکریا نے صدارت کی۔