انقرہ/برسلز(این این آئی)یورپی یونین اور ترکی نے بحیرہ ایجیئن کے خطرناک راستے سے یونان پہنچنے والے افغان مہاجرین کو آگے آنے سے روکدیا۔پناہ گزینوں کے سلسلے میں برسلز میں یورپی یونین اور ترکی میں مذاکرات ہورہے ہیں جنہیں ماہرین نے مشکل مذاکرات قرار دیا ہے۔
میڈیارپورٹس کے مطابق یورپی یونین کے ایک علیٰ عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان تارکین وطن اور مہاجرین کے یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے امکانات قدرے کم ہیں۔ شامی بچوں کے لیے تعلیمی سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔یورپی پارلیمان کی ترکی کے لیے مندوب کاٹی پرِی نے ایک انٹرویومیں کہاکہ یورپی یونین کی توجہ صرف شامی مہاجرین پر مرکوز ہے اور یونین کسی دوسری طرف دیکھ ہی نہیں رہی۔ پرِی نے کہاکہ اگر ترکی میں شامی مہاجرین کے مسئلے کا حل نکال بھی لیا جائے، تو بھی مہاجرین کا بحران ختم نہیں ہو گا کیونکہ وہاں کئی ملکوں کے ایسے باشندے موجود ہیں، جن کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ترکی میں چونسٹھ ہزار افراد نے پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں، جن میں گیارہ ہزار کے قریب افغان شہری بھی تھے۔پناہ گزینوں پر یورپ اور ترکی میں تعطل برقرار ہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ میں پناہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران سے نمٹنے کے لیے ترکی اور یورپی یونین کے رہنما ہنگامی اجلاس کے لیے برسلز میں جمع ہیں جنھیں جرمن چانسلر نے ’مشکل‘ قرار دیا ہے۔یورپی یونین پناہ گزینوں کی آمد پر روک لگانا چاہتی ہے اور بلقان کی ریاستوں سے گزر کر یورپ جانے والے راستے کو بند کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔یورپی یونین ترکی پر زور ڈال رہی ہے کہ وہ 3.3 ارب ڈالر کی امداد کے عوض کچھ پناہ گزینوں کو قبول کرے جو ترکی سے ہو کر یورپ آ رہے ہیں۔طیب اردگان نے یورپی یونین پر الزام لگایا ہے کہ وہ امداد کے وعدہ پر عمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔انھوں نے انقرہ میں کہا: ’چار مہینے ہو گئے ہیں۔ میرا وزیرِ اعظم برسلز میں مصروف ہے۔ مجھے امید ہے وہ پیسہ لے کر آئے گا۔اس اجلاس کے دوران یورپی رہنما ترکی پر زور دیں گے کہ وہ اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترکِ وطن کرنے والے ایسے افراد کو ملک میں داخلے کی اجازت دے جنھیں یورپی ممالک سے بےدخل کیا گیا ہے۔مرکل نے کہا کہ انھیں ایک ’مشکل بحث‘ کا خدشہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’آج کا دن ترکی کے ساتھ مل کر ایک دیرپا حل تلاش کرنے کا ہے، ایک ایسا راستہ تلاش کرنے کی کوشش تاکہ غیرقانونی نقل مکانی کو روکا جائے اور پناہ گزینوں کے حالاتِ زندگی بہتر بنائے جا سکیں۔آسٹریا اور بلقان ریاستوں کی جانب سے سرحدی پابندیوں کے نفاذ کے بعد مقدونیہ سے متصل یونان کی سرحد پر تقریباً 13 ہزار پناہ گزین پھنسے ہوئے ہیں۔اس اجلاس کے مسودے کے مطابق یونان کے ساتھ اس مشکل لمحے میں کھڑے ہونے اور ان حالات سے نمٹنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔