عنبرین فاطمہ
ملیحہ لودھی کا نام پاکستانی سیاست اور صحافت میں ممتاز مقام رکھتاہے۔ آج کل یہ یونائیٹڈ نیشن میں پاکستان کی مستقل مندوب ہیں۔ لاہور کی ایک مڈل کلاس فیملی میں پیداہونے والی ملیحہ لودھی مختلف اخبارات میں اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہیں۔ملیحہ لودھی سے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے گفتگو ہوئی ۔ جوکہ قارئین کی نذر ہے۔
”خواتین کا عالمی دن“ ہمیں یاددہانی کراتا ہے کہ ہم اپنی پچھلی اچیومنٹس کا جائزہ لیں۔ آج جو ہمارے مسائل ہیں ان پر غور کریں اور کل کے لئے لائحہ عمل بنائیں۔اگر ہم خواتین کی بات کریں توخواتین نے زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے برابر کام کر کے اپنی صلاحیتوں کو منوا کے اپنا بیانیہ تبدیل کیا ہے اور معاشرے کو اس بات پر قائل کیا ہے کہ وہ کمزور نہیں۔ اور اگر انہیں مواقع دیئے جائیں تو وہ خود کو بہترین لیڈر تک ثابت کر سکتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال ”ڈاکٹر ملیحہ لودھی“ ہیں جن کو جب جب موقع ملا انہوں نے اپنی لیڈرشپ کوالٹیز کا بھرپور استعمال کیا۔ ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کئی لحاظ سے کافی ترقی کی ہے۔ اگر آپ دوسرے ترقی پذیر ممالک اور اسلامی ممالک سے موازنہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ پاکستانی خواتین آج بہتر مقام پر کھڑی ہیں بہرحال ان کامیابیوں کے ساتھ مشکلات اور دشواریاں بھی ہیں۔ ویمن امپروومنٹ کے ضمن میں ابھی بہت کام باقی ہے لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے اب تک کیا حاصل کیا ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جس نے اسلامی ممالک میں سب سے پہلے ایک خاتون کو وزیراعظم منتخب کیا۔ ہمارے ملک میں خواتین قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی سپیکر رہ چکی ہیں۔ موجودہ سیکرٹری خارجہ بھی خاتون ہیں۔ کئی اہم ممالک میں ہماری خواتین سفارتکاری کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ یہ سب بہت اہم ہے کیونکہ یہ خواتین ہمارے ملک میں رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر آپ پاکستان میں خواتین کی نمائندگی کو پرکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ قومی اور صوبائی سطح پر خواتین اپنی مخصوص نشستوں کے علاوہ بھی نمائندگی کر رہی ہیں۔ خواتین نہ صرف جنرل سیٹس پر مردوں کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں بلکہ جیت بھی رہی ہیں۔ خواتین سیاست کی بلندیوں تک پہنچتی ہیں لیکن ہمارے دیہی علاقوں میں ابھی بہت کام باقی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ معاشرے کے پسماندہ طبقات کو نمائندگی کے بہتر مواقع کیسے فراہم کئے جا سکتے ہیں۔
نوائے وقت: کہنے کو ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں لیکن آج بھی ہماری خواتین فرسودہ رسم و رواج میں پھنسی ہوئی ہیں اس پر کیا کہیں گی؟
ڈاکٹر ملیحہ لودھی:۔ اس مسئلے کی تین بنیادی وجوہات ہیں: -(1) تعلیم کا فقدان -(2) معاشرے کا رویہ -(3) عورت کی تعلیم اور کوشش برائے معاش پر اُس کے خاندان کا رویہ۔یہ سب وجوہات مل کر رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔ آپ مشاہدہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اگر عورت تعلیم حاصل کرے اور اس کا خاندان اور معاشرہ اس کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے تو وہ نہ صرف مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں بلکہ اس سے سبقت لے جانے کی بھی اہل ہے۔
نوائے وقت: پاکستان میں خواتین آج کہاں کھڑی ہیں؟
ڈاکٹر ملیحہ لودھی: اولاً خواتین کے حقوق کا تحفظ اور وومن امپروومنٹ ہمارے آئین کا حصہ ہے۔ نہ صرف ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے بلکہ ہمارے ملک کے بانی کی بھی یہ ہی ہدایات تھیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتی جب تک اس کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوں۔
نوائے وقت: خواتین کی ترقی کی راہ میں معاشرتی رویے کب تک رکاوٹ بنتے رہیں گے اور ان معاشرتی رویوں میں تبدیلی کس طرح ممکن ہے؟
ڈاکٹر ملیحہ لودھی: میں نے وجوہات کی نشاندہی تو کر دی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ معاشرتی تبدیلی یکسر نہیں بلکہ دھیرے دھیرے آتی ہے۔ اس تبدیلی کے لانے میں تعلیم سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔ تعلیم کا حصول اور اس کی فراوانی ہی معاشرے میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ تعلیم ہی سے انسان کو اپنے حقوق کی شناسائی اور ان کو تعلیم حاصل کرنے کا ذوق آتا ہے۔ تعلیم ہی انسان میں اعتماد پیدا کرتی ہے۔ ایک باوقار اور مو¿ثر شہری بننے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ تعلیم ہی سے سیاسی، معاشی اور معاشرتی شعور پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک عورت کو اپنی صلاحیتوں کو بددرجہ اتم بروئے کار لانے کے لئے خاندان کے اعتماد اور سہارے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ میں آپ کے سامنے اپنا ذاتی تجربہ پیش کرتی ہوں۔ میرے تعلیم حاصل کرنے سے لے کر آج جس مقام پر اللہ نے پہنچایا ہے وہاں تک پہنچنے میں میرے والدین کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اگر عورت کے والدین، بہن بھائی اس کی حوصلہ افزائی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری خواتین بھی ایک پراعتماد، خوش کن اور بھرپور زندگی گزار سکیں۔
نوائے وقت: بین الاقوامی سطح پر یہ تاثر ہے کہ پاکستان کی خواتین مظلوم ہیں اس تاثر کو کس طرح سے زائل کیا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر ملیحہ لودھی: پاکستان کی آج کی خواتین کا 1947ءکے دور کی خواتین کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں خواتین نے بہت زیادہ ترقی کی ہے۔ اب تو پاکستان کی 70ویں سالگرہ آرہی ہے میں یہ کہنا چاہوں گی کہ صرف خواتین اور پاکستان کے معاملات کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر پائی جانے والی مِس پرسیپشن کو درست کرنا نہ صرف حکومت کا کام ہوتا ہے بلکہ اس میں میڈیا کا بھی بہت بڑا کردار ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہاں یہ بھی دیکھنا ہے کہ میڈیا کن چیزوں پر فوکس اور کن چیزوں کو پراجیکٹ کرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ ہماری جو رول ماڈل خواتین ہیں ان کی اور ان کے کام کی پراجیکشن ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ سول سوسائٹی میں ان کا بھی اہم کردار ہے، آخر ہمارے ملک (پاکستان) کی بھی اتنی زیادہ آرگنائزیشن ہیں تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ایک پارٹنرشپ ہی ہے۔ باقی چیلنجز پاکستان میں ہیں تو بہت زیادہ جس سے نمٹنا کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔ غیرت کے نام پر قتل ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ایسی چیزیں وہاں ہو رہی ہیں جن علاقوں، دیہاتوں میں تعلیم کی کمی ہے۔ ان معاملات سے نبردآزما ہونے کے لئے گورنمنٹ پوری کوشش کر رہی ہے، میرے حساب سے جب ہم ایک چیلنج کو ایڈریس کر رہے ہیں تو اس کی تشہیر بھی ضروری ہے تاکہ باہر کے ممالک کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ ہم اپنے مسائل کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ ان کا حل بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔ خواتین کے سٹیٹس کو بہتر بنانے کے لئے گورنمنٹ کی تمام کوششوں کی تشہیر کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔
نوائے وقت: آپ نے بھی صحافت کی ہے، کیریئر بنایا ہے اس لئے پاکستان کے حالات سے واقف ہیں، اپنے کیریئر کے سفر کے بارے میں کیا بتانا چاہیں گی؟
ڈاکٹر ملیحہ لودھی: جہاں تک میرے کیریئر اور پروفیشنل سفر کی بات ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گی کہ باقی خواتین کی طرح مجھے بہت سارے چیلنجز کا سامنا رہا۔ میرے حساب سے اگر آپ ان چیلنجز سے نمٹنا اور پروفیشنل معاملات کو بہت آگے لے کر جانا چاہتی ہیں تو پھر اپنا فوکس منزل پر رکھیں اور یاد رکھیں فوکس کمٹمنٹ سے آتا ہے۔ بہت ساری خواتین اپنا فوکس منزل پر رکھنے کی بجائے ان چیزوں میں پڑی دکھائی دیتی ہیں کہ مرد حضرات کو تو ایسے مسائل کا سامنا نہیں ہے تو مجھے کیوں ہے۔ میرا خیال ہے ایسی سوچیں آپ کو اپنے مقصد سے ہٹاتی ہیں اور آپ کا جذبہ بھی کم ہو جاتا ہے تو میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ آپ کو خود پراعتماد ہونا چاہیے اور موقع ملے تو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں۔ یوں آپ اپنے پروفیشنل کیریئر میں خاصی ترقی کر سکتی ہیں۔ میں آپ کو یہاں اپنی مثال دوں گی کہ میں سب سے پہلے ایک اخبار کی ایڈیٹر بنی تو پہلے ایک سال میں مجھے ایڈیٹر نہ بنایا گیا۔ شاید مینجمنٹ کا یہ خیال تھا کہ یہ خاتون ہے یہ اس قسم کی ذمہ داری کو نہیں نبھا سکتی ہیں اور نہ ہی معاشرہ اس کو قبول کرے گا لیکن ان کا اندازہ اس وقت غلط ثابت ہوا جب مجھے اخبار کا ایڈیٹر بنایا گیا تو میں نے کام کر کے دکھایا۔ اس وقت ان کو شاید سمجھ آئی کہ ایک خاتون بھی وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کر سکتے ہیں۔ دیکھیں معاشرے میں ہر چیز کی قبولیت ہوتی ہے بس صرف کبھی کبھی پہل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیر میں اپنی مینجمنٹ کی بہت مشکور تھی کہ انہوں نے اس وقت ایک رسک لیا تھا ویسے بھی اس زمانے میں خواتین نہ ہونے کے برابر صحافت میں آتی تھیں اور براڈ کاسٹ میڈیا کا تو وجود نہ تھا ہاں ریاست کا ایک چینل تھا۔ میں سمجھتی ہوں کہ آخرکار مردوں نے ہی مجھ پر اعتماد کیا پھر میں نے بھی پوری کوشش کی کہ اس اعتماد اور امیدوں پر پورا اتروں۔ لہٰذا میں ان لڑکیوں کو یہ نصیحت دوں گی جو نیا نیا کیریئر بنا رہی ہیں کہ صرف اپنے مقاصد کو فوکس کریں اور آگے بڑھنے کے لئے کوشش میں لگی رہیں اور چیلنجز سے مت گھبرائیں۔
نوائے وقت: ایک طرف ہماری خواتین آسکر لے رہی ہیں تو دوسری طرف غیرت کے نام پر قتل ہو رہی ہیں اس پر کیا تبصرہ کریں گی؟
ڈاکٹر ملیحہ لودھی: پاکستان میں اس وقت جو صورتحال ہے اس پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ خواتین نے بہت ترقی کی ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے برابر کام کر رہی ہیں تاہم دوسری طرف غیرت کے نام پر قتل بھی ہمارے لئے بڑا مسئلہ ہے اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے دوسرے ایسے معاملات ہیں کہ جن میں خواتین واقعی مظلوم دکھائی دیتی ہیں جو کہ بہت ہی زیادتی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک کی خاتون مسلم ملکوں کی پہلی وزیراعظم بنی، سیاست میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، آسکر جیتے، فلمیں بنائیں، ٹاپ کی وکیل اور ججز بنیں۔ دوسری حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک بھی کیا جاتا ہے جس کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے نہ ہی انسانیت۔ ایسے رویوں کو تعلیم کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ریاست کا یہاں ایک کلیدی رول ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو یہ باور کروانا ہو گا یہ ایک جرم ہے اور جو کوئی بھی اس کا مرتکب ہو گا اس کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس حوالے سے مثالیں قائم کریں تاکہ لوگوں کو پتہ ہو کہ ہم نے غیرت کے نام پر قتل کیا تو بچیں گے ہم بھی نہیں۔ ہمیں اپنے ملک کے باسیوں کو تعلیم اور روشن خیالی کی طرف لے کر جانا ہے خصوصی طور پر خواتین کو یہ بتانا اور سکھانا ہو گا کہ ان کے حقوق بھی برابری کے ہیں اور یہ حقوق ان کو مذہب اور آئین دیتا ہے۔ میری بات یاد رکھیں کہ جو معاشرے اپنی خواتین کو عزت نہیں دیتے وہ کبھی ترقی نہیں کرتے۔
”خواتین کا عالمی دن“ملیحہ لودھی کی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر نوائے وقت سے خصوصی گفتگو
Mar 08, 2017