سارا سال بچے نصابی وغیر نصابی سر گرمیوں میں مصروف رہتے ہیں،تعلیم اور تفریح ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہے جبکہ سال کے آخر میں سالانہ امتحان ہوتے ہیں ،پورا سال بچے تعلیم اور کھیل کے میدان میں ایک دو سر ے پر سبقت حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں لیکن کامیاب وہی ہوتے ہےں جو محنت شوق اور لگن سے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔تعلیمی سال کے اختتام پربچوں کواپنے پورے سال کی کارکردگی کا صلہ ملتا ہے،ان دنوں بچوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں کیونکہ اُنہوں نے اگلی کلاسوں میں پرموٹ ہوناہے۔ موسم بہار میں ہر سکول میں سالانہ تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، بچوں کے لئے یہ تقریبات میلے سے کم نہیں اگر اسے بچوں کا تفریخی میلہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں سالانہ امتحان مکمل ہونے کو ہیں جبکہ زیادہ تر سکولوں میں ہوچکے ہیںاوران دِنوں ننھے منے دوست اپنے پورے سال کی کارکردگی کے بعد سالانہ تقریبات میں مصروف ہیں۔ دوسری طرف والدین بچوں کی نئی کلاسوں کے سلیبس اور یونیفارم خریدنے کی تیاریوں میں ہیں۔
سالانہ امتحانوں سے فارغ ہونے کے بعد ہر طالب علم اس انتظار میں ہوتا ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے سالانہ امتحان کا رزلٹ نکل آئے۔ جوں جوں رزلٹ کا دن قریب آتا ہے طالب علموں کی بے چینی بڑھتی جاتی ہے۔بے شک ان کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سی پوزیشن حا صل کریں گے اس کے باوجودان کی بے چینی کاعالم برقرار رہتا ہے۔آخرکار وہ دن بھی آن پہنچتا ہے جب پورے سال کی محنت کا صلہ ان کو نمایاں یا اعلیٰ پوزیشن کی صورت میں ملناہوتا ہے۔ہرکلاس میں چند بچے ہی نمایاں یا اعلیٰ پوزیشن حاصل کرپا تے ہیں کیو نکہ اس ٹیلنٹڈ دور میں لائق بچوں کی ایک ایک نمبر سے پوزیشن تبدیل ہو جاتی ہے۔
اس وقت زیادہ تر سکولوں میں سالانہ تقریبات کا آغاز ہو چُکا ہے اور یہ سلسلہ دو ماہ جاری رہے گا۔رزلٹ کے موقع پر ہال کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں،کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، چھوٹے بچوں کے ہمراہ ان کے والدین بھی ہیں ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف ہے یہ وہ لمحہ ہے جب طالب علموں کا دل دھک دھک کررہا ہوتا ہے جونہی ہیڈماسٹر ،پرنسپل یا رزلٹ اناو ئنسر سٹیج پر اعلان کرنے لگتا ہے تو پورے ہال میں سناٹے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے طالب علموں کا ایک ایک لمحہ ایک ایک گھنٹے کے برابر ہوتا ہے اور جب اول، دوئم اور سوئم پوزیشن حاصل کرنے والوں کے نام پکارے جاتے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا یہ ذہین ،ہو نہار اور صلا حیتوں سے مالا مال طلبہ و طالبات تالیوں کی گونج میں سٹیج پر جاتے ہیں اور اپنے اپنے انعام وصول کرتے ہیں۔ والدین عزیز و اقارب اور دوستوں سے مبارکباد وصول کرتے ہیں بلکہ ان سے بھی انعامات وصول کرتے ہیں۔چند یوم کی چھٹیوں کے بعد نئی کلاسوں کا آغاز ہونے سے قبل سالانہ تقریبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سرکاری و غیرسرکاری سکولوں میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کہیں سپورٹس ڈے تو کہیں مینا بازار سجتے ہیں کہیں مختلف کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں تو کوئی تقریری مقابلے میں حصہ لینا پسند کرتا ہے۔ یہاں بھی اول دوئم اور سوئم آنے والوں کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ ذہین، ہونہار اور لائق طالب علموں کو ہرکوئی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔تعلیم اور تفریح ساتھ ساتھ ہو تو پڑھنے اور کھیلنے کا لطف بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ تند ر ست اور چاک و چوبند رہنے کے لیے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصّہ لینا ضروی ہے اس سے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی نشوونما بھی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں۔ ہر وقت کھیلتے رہنا یا ہر وقت پڑھتے رہنا بھی عقلمندی نہیں۔تعلیم اور تفریح کا سلسلہ ساتھ ساتھ ہوناضروری ہے ، دونوں میں دلچسپی رہنی چاہئے ماہرین کے مطابق فارغ اوقات میں ایسا کھیل کھیلنا چاہیے جس سے جسمانی ورزش ہو۔
کئی طالب علموں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے محنت بھی خوب کی اور کوئی پوزیشن بھی نہ حاصل کرسکے یہ درست نہیں۔ انسان جو بیجتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ بے شک ایسے طالب علموں نے خوب محنت کی ہوگی لیکن کمرہ امتحان کا خوف ان کے سر پر سوار ہوگا،بعض طالب علم پڑھائی میں تیز ہوتے ہیں لیکن کلاس تک، جیسے ہی کمرہ امتحان میں جاتے ہیں اورسوالیہ پرچہ دیکھنے سے مارے خوف کے ان کے ذہن سے سب کچھ نکل جاتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ضرورت سے زیادہ شرارتی اور بڑوں کا ادب نہ کرنے والے طالب علموں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے اگر وہ اپنے کسی دوست سے ایسی شرارت کرتے ہیں جو شرارت کے زمرے میں نہیں بلکہ دل شکنی کے زمرے میں ہے ان طالب علموں سے کوئی نہ کوئی غلطی سرزدضرور ہوئی ہوتی ہے(اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں)اردگرد نگاہ دوڑانے سے آپ کو ایسے دو ست یا کلاس فیلوز ذہن میںآئیں گے جوکلاس روم میں اساتذہ کے سوالوں کا جواب فرفر دیتے ہیں لیکن اُن کے اتنے اچھے مارکس نہیں آتے۔ایسے طالب علم اگراپنے آپ کا جائزہ لیں اور یہ سوچیں کہ کہیں اُنہوں نے کسی کادل تو نہیں دُکھایا یاان کے منہ سے ایسے الفاظ تو نہیں نکل گئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں،جس سے دوسروں کی دل شکنی ہوئی ہو یا اُنہوں نے اپنے بڑے بزرگوں کی نافرمانی تو نہیں کی یقیناً کوئی نہ کوئی بات ضرور ہوتی ہے جس وجہ سے ان کو یہ دن دیکھنا پڑتاہے۔
ننھے منے دوستو! بڑے بزرگوں کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے۔آپ بڑوںکی عزت کریں گے ان کا احترام کریں گے تو یقیناً ان کے منہ سے دُعا ہی نکلے گی یہ تو ہے بڑے بزرگوں کی بات لیکن والدین کی نافرمانی کرنا ان کا کہا نہ ماننا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ہر طالب علم کی کامیابی کا راز والدین کی خدمت، اساتذہ کا احترام اور بڑے بزرگوں کی دعاﺅں میں پنہاں ہیں۔تاریخ گواہ ہے جتنی بھی نامور شخصیات ہیں اُنہوں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ بڑوں کا ادب کیا والدین اور اساتذہ کی نصیحتوں پر عمل کیا اور کامیابی نے ان کے قدم چومے۔