اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) منگل کے روز قومی اسمبلی میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بحث کے دوران، افغانستان، بھارت اور ایران کو تو ہمنوا میسر تھے لیکن پاکستان کے حق میں ایک آدھ نحیف آواز ہی سنائی دی۔ حکومت کو رگیدنے کی کوشش تو بجا، کہ سیاست کے اکھاڑے میں یہی وطیرہ درکار ہوتا ہے لیکن ریاستی اور قومی مفادات تو اس کھینچا تانی سے ماوراء ہوتے ہیں۔ ایوان میں نہایت ہی سادہ دلی سے مشورہ دیا جا رہا تھا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کیلئے قبائلی ارکان پارلیمنٹ کا جرگہ کابل بھجوایا جائے۔ گویا معاملہ محض چند غلط فہمیوں کے ازالے کا ہے جو مل بیٹھ کر سلجھایا جا سکتا ہے اور ایسی کوئی پیچیدگیاں درپیش نہیں کہ افغان سرزمین، غیرملکی طاقتوں بطور خاص بھارت کا اڈا بنی ہوئی ہے جہاں سے ایک درجن سے زائد ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں، پاکستان کے خلاف مل کر کارروائیاں کر رہی ہیں۔ ان ارکان کے نزدیک شائد یہ بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے گروپ، پاک افغان سرحدی علاقوں میں پناہ گاہیں بنا کر وہاں سے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں افغانستان کو منانا ضروری ہے اور یہ پاکستان کا کریڈٹ نہیں کہ اس نے تیس سے پچاس لاکھ مہاجرین کو پناہ دی، افغانستان کو بندرگاہ کی سہولیات دیں، ہر قسم کی اشیائے ضرورت فراہم کیں، سوویت حملہ کے وقت مزاحمت کی بنیاد فراہم کی۔ ان پاکستانی ارکان پارلیمنٹ کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ افغان حکومت، حقیقی افغان قیادت کے بجائے حامد کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک اس مغرب زدہ اشرافیہ پر مشتمل ہے جن کے خاندان امریکہ، کینیڈا اور دیگر مغربی ملکوں میں مقیم ہیں اور یہ اشرافیہ صرف ڈالر سمیٹنے کیلئے کابل میں مقیم ہے اور اسی مقصد کیلئے دیگر ملکوں کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ منگل کے روز کی کارروائی یہ جاننے کا بھی اہم ذریعہ تھی کہ پاکستان کی پارلیمان میں کس معیار کی بحث کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کی عائشہ گلالئی سمیت اپوزیشن کے متعدد ارکان کا اصرار تھا کہ پشتونوں کو دبانے کے بجائے افغان ذہن کو سمجھ کر ان سے بات کی جائے۔ ایم کیو ایم کے علی رضا کو شکوہ تھا کہ ایران کے صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان کے دوران بھارتی جاسوس کل بھوشن کے ایران سے پاکستان میں داخل ہونے کا ٹویٹ کر کے ایرانی صدر کی توہین کی گئی۔ انہیں یہ سوچنے کی شائد توفیق نہیں ہوئی کہ کل بھوش ہو یا ملا اختر منصور، ایرانی سرزمین پر ان کی کیا مصروفیات ہوتی ہیں اور ایسے عناصر، ایرانی سرحد عبور کر کے پاکستان میں ہی کیوں داخل ہوتے ہیں؟ تحریک انصاف کی شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد بند کرنا مسئلہ کا حل ہے تو بھارت کے ساتھ سرحد بھی بند کر دی جائے۔ میاں عبدالمنان نے زوردار انداز میں کہا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد ٹھیک بند کی گئی ہے لیکن وہ بہرحال سرکاری رکن تھے البتہ اپوزیشن بنچوں سے آزاد رکن جمشید دستی نے پاکستان کے حق میںآواز بلند کی اور کہا کہ سرحد درست بند کی گئی ہے۔ انہوں نے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی صحت، اور اس حوالہ سے ان کی استعداد کا معاملہ بھی اٹھایا جس کا وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے سنجیدگی سے نوٹس لیا اور تفصیل سے بتایا کہ بے شک سرتاج عزیز معمر ہیں لیکن ان کی صحت، یادداشت، صلاحیت اب بھی لاجواب ہے۔ خارجہ پالیسی پر بحث سے استفادہ کرتے ہوئے اپوزیشن نے وزیر خارجہ نہ ہونے پر حکومت کے خوب لتے لئے۔ پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے کہا کہ ’’ فارن منسٹر کا فوراً تقرر کیا جائے۔ ایک رکن نے تو یہ خدشہ بھی ظہار کر دیا کہ میاں نواز شریف اس لئے خائف ہیں کہ وزیر خارجہ کو ان سے زیادہ شہرت ملے گی۔ سرتاج عزیز بھلے بہت باصلاحیت مشیر خارجہ ہوں گے لیکن وزیر خارجہ کا نہ ہونا ، بہرحال حکومت کی چھیڑ بن چکی ہے جس کے جواب میں وزراء کو لمبی چوڑی وضاحتیں کرنا پڑتی ہیں۔ آئی پی ایل ٹو میں شریک ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کے بارے میں مبینہ نسل پرستانہ جملوں کی بازگشت بھی ایوان میں سنائی دی جس کا تحریک انصاف کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا۔