خواتین کسی بھی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار اداکرتی ہیں ۔ اس سال 8 مارچ کو ـ ’’تبدیلی کیلئے بہادر بنو‘‘ #Be Bold For Change کے عنوان سے خواتین کاعالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں صدی کے آغاز میںاقوام متحدہ نے تاریخی "میلینئم سمٹ" میں دنیا بھر میں ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی یہ مدت ختم ہونے کے بعد گزشتہ برس سترہ سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا25 ستمبر 2015ء کو پاکستان سمیت دنیا کے 193 ممالک اور23 بین الاقوامی تنظیموں نے ترقیاتی ترجیحات کے تعین اور انکے حصول کا عہد کرتے ہوئے ایک دستاویز پر اپنے دستخط ثبت کیے تھے ۔ نیو ملینئم ڈویلپمنٹ گولز کے سات مقاصد میں چوتھا خواتین کی ترقی Empowerment)) اور صنفی امتیاز کے خاتمے سے متعلق تھا ۔گذشتہ برس ان مقاصد کو پائیدار ترقیاتی 17 اہداف میں تبدیل کردیا گیا ہے جس میں صنفی امتیاز کا خاتمہ اور زچہ وبچہ کی صحت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے Sustainable Develpment Goals کا ہدف نمبر5 صنفی برابری سے متعلق ہے جس میں تمام ممالک کو صنفی امتیاز کے خاتمے اور خواتین کو ترقی کے مواقع پیدا کرنے کا کہا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کیمطابق پاکستان صنفی امتیاز کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک سے بہت پیچھے ہے۔144 ممالک میں پاکستان کا نمبر 143واں ہے صرف ایک ملک پاکستان سے پیچھے ہے یہ رپورٹ ارباب اختیار کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے پاکستان میں خواتین کو تحفظ دینے اور ترقی کرنے کے مواقع پیدا کرنے کیلئے بہت سارے قوانین بنائے گئے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان پرمکمل عملدرآمد کیوں نہیںہو رہا ؟ خواتین کیلئے بنائے گئے قوانین میں گھریلو تشدد (روک تھام وتحفظ ) کا قانون اہم ہے یہ قانون قومی پالیسی برائے ترقی نسواں اور خواتین سے ہر قسم کے امتیازی سلوک کے سدباب کنونشن کے نتیجے میں بنا پاکستان میں خواتین کے سماجی ومعاشی اختیارات میں اضافے کی غرض سے محفوظ ماحول کو یقینی بنانے کیلئے ’’خواتین مخالف کاروائیاں کی روک تھام (فوجداری قانون میں ترمیم ) کا قانونی مسودہ 2012ء منظور کیا گیا۔ تعزیرات پاکستان 1860 ء کیمطابق مرضی سے شادی کرنیوالی خواتین کو بدلہ، صلح، ونی، سوارا اور حق بخشوانا جیسے اقدامات کیخلاف تحفظ دیتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی دفعات 498 بی اور 498 سی کے تحت جائیداد میں ان کا حصہ بھی یقینی بناتا ہے۔ صوبہ پنجاب میںتو خواتین کو وراثت میں لازمی حصہ دار بنانے کے انتقال وراثت کے فورا بعد جائیداد کی فوری تقسیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ لینڈ ریونیو ایکٹ دفعہ 142A,135A) ) تیزاب کے واقعات اور خواتین پر تیزاب پھینکنے جیسے جرائم کی روک تھام کا قانونی مسودہ 2010ء میں منظور کیا گیا۔ خواتین کو معاشی ترقی میں برابر کے مواقع دینے اور مختلف کاروباری مراکز، اداروں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کرنے اورجاء ملازمت پر خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کیخلاف بھی قانونی مسودہ 2010ء میں پاس کیا گیا یہ قانون اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ملکی معاشی ترقی اور خوشحالی کیلئے خواتین کا بااختیار ہونا ناگزیر ہے اس قانون کا اطلاق ملک کے تمام سرکاری وغیرسرکاری اداروں ، کمپنیز آرڈیننس 1984ء کے تحت صنعتی اداروں اور کاروباری مراکز پر ہوتا ہے جس کا مقصد دفاتر میں ایسا ماحول یقینی بنانا ہے جہاں خواتین ہراساں ہوئے بغیر باوقار طریقے سے فرائض انجام دے سکیں۔ غیرت کے نام پر قتل اور بدلہ صلح جن سے مراد قتل کے جرم میں صلح کی نیت سے عورت کو شادی کیلئے پیش کرنے سے سختی سے روکنے کیلئے ’’فوجداری مقدمات کا قانونی مسودہ (غیرت کے نام پر رائم)، 2004ء میں منظور کیا گیا ۔ 25 فروری 2016ء کو پنجاب اسمبلی نے صوبے کی خواتین کو گھریلو تشدد، نفسیاتی جذباتی دبائو،معاشی استحصال اور سائبر کرائمز سے تحفظ فراہم کرنے کا قانون منظور کیا۔ ان قوانین کی روح کے مطابق عمل درآمد یقینی کیوں نہیں بنایا جاتا ۔ان قوانین پر عملدرآمد میں جو رکاٹیں اور انفراسٹرکچر کیلئے فنڈز کی کمی ہے، حکومت وہ کیوں فراہم نہیں کررہی ؟ آئین پاکستان کے آرٹیکل -C 37کامقصداس امر کو یقینی بناناہے کہ خواتین اور بچے ا یسے ذریعہ معاش کو اختیار نہ کریںجو انکی جنس اور عمر کیلئے مناسب نہ ہوں مگر بدقسمتی سے اب بھی لاکھوں خواتین، لڑکیاں ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں جہاں انہیں بہت کم معاوضہ دیا جاتا ہے ۔گھروں میں کام کرنیوالی کم عمر لڑکیوں کے اوپر تشدد اور جنسی زیادتی کے ہزاروں کیس سامنے آتے ہیں ۔عورت فائونڈیشن کی رپورٹ کیمطابق پاکستان میں 2008ء سے 2013ء تک خواتین پر تشدد کے واقعات میں 3.71 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کیمطابق چولہوں کے پھٹنے کے واقعات ،عزت کے نام پر قتل، جہیز ،تیزاب پھینکنا،اجتماعی تشدد،عورتوں کی تجارت ،عورتوں کا اغوائ، عورتوں کو زبردستی طوائف بنانااور جنسی تشدد کے واقعات میں کمی کی بجائے ان میں اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر ایک کروڑ 40 لاکھ بچیاں شادی کے بندھن میں باندھ دی جاتی ہیں ۔ یونیسیف کی رپورٹ 2015ء کے ہوش شرباء حقائق، اربابِ اختیار واقتدار کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیںکہ پاکستان 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے دنیابھر میں 64 ویں اور 15 سال سے کم عمر بچیوں کی شادی کی شرح کے حوالے سے 70 ویں نمبر پر ہے ۔ان تلخ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت ،سول سوسائٹی اور میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو خواتین کے تحفظ کیلئے بنائیں گے قوانین کی مکمل آگاہی دے۔