8مارچ 1907ء میں نیویارک کی ملبوسات سازی کی صنعت سے وابستہ خواتین نے پہلی مرتبہ دس گھنٹے کام کے عوض تنخواہوں میں اضافے، اوقات کار میں کمی کے لئے آواز اُٹھائی۔ احتجاج کیلئے عورتیں سڑکوں پر نکل آئیں تو پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ گھڑ سوار پولیس نے سڑکوں پر بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور سخت تشدد کیا۔ 8مارچ 1908ء میں سوئی سازی کی صنعت سے وابستہ عورتوں نے جبری مشقت لینے کے خلاف مظاہرہ کیا تو ایک بار پھر ریاستی تشدد کے ذریعہ ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ 1910ء میں ایک روسی اکٹیویٹ خاتون ’’کلارا زشینکن‘‘ نے عورتوں کی اس موومنٹ کو خراج عقیدت دینے کیلئے ایک کانفرنس بلائی جس میں ہر سال 8 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ تب سے ہر سال 8 مارچ کو دنیا کے ممالک اس دن کو عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منا رہے ہیں۔ پہلے اس دن کو محنت کش عورتوں کے حوالے سے منایا جاتا تھا مگر جب سے اقوام متحدہ نے اس دن کو دنیا بھر کی عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کی علامت کے طور پر منانا شروع کیا تو اب اسے عورتوں کی برابری اور یکجہتی کی جدوجہد کے ساتھ جوڑ دیا گیا اور اب یہ جدوجہد پوری انسانیت کے ساتھ جڑ چکی ہے۔ 1972ء میں اقوام متحدہ نے عورتوں کے مسائل پر پہلی عالمی کانفرنس 1975ء میں میکسیکو میں منعقد کی جس کا مقصد تھا عورتوں اور مردوں کے درمیان برابری کا حق اور ترقی میں عورتوں کی شرکت یقینی بنائی جائے اور یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر دس سال بعد عورتوں کی کانفرنس ہو گی جس میں یہ دیکھا جائے گا کہ اس پر کہاں تک عمل کیا گیا۔ 1980ء میں عورتوں کی دوسری کانفرنس ڈنمارک میں منعقد کی گئی جس میں میکسیکو میں مقرر کئے گئے مقاصد کا جائزہ لیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ مکمل نتائج تو حاصل نہ کئے جا سکے مگر قابل ذکر حاصل یہ تھا کہ دنیا بھر کی عورتوں کے حالات کا منظرنامہ کھل کر سامنے آ گیا۔ ڈنمارک میں عورتوں کے نقطہ نظر کے حوالے سے معلومات کا خزانہ اکٹھا ہو گیا۔ ڈنمارک میں عورتوں کے نقطہ نظر سے ترقی کا نیا مفہوم متعین کیا گیا جو اقوام متحدہ کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوا اور پھر 1985ء میں تیسری عالمی کانفرنس (نیروبی) میں ہوئی جہاں ترقی کے حوالے سے عورتوں کا پانچ سالہ جائزہ لیا گیا اور عورتوں کی ترقی کیلئے حکمت عملیاں بنائی گئیں۔ عورتوں کے بارے میں چوتھی عالمی کانفرنس بیجنگ میں منعقد ہوئی جس میں پچھلی کانفرنس کے فیصلوں کو مربوط کیا گیا۔ حکومتوں نے منفی پس منظر کے حوالے سے خواتین کے مسئلے کو اجتماعی سطح پر رکھنے کا عہد دہرایا گیا۔ اس کے علاوہ عورتوں کی چوتھی کانفرنس میں دنیا بھر میں عورتوں کو بااختیار بنانے کا وعدہ کیا یعنی ہر جگہ عورتوں کو کم سے کم 33% نمائندگی ملے۔ عورتوں کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی حکومتوں کے نمائندوں کے علاوہ پچاس ہزار این جی اوز نے شرکت کی جس میں پاکستان سے 200 لوگ شریک ہوئے۔ مجھے بھی شریک ہونے کا موقعہ ملا اور بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا۔ پاکستان کی این جی اوز نے بیجنگ کی کارروائی میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا۔ پاکستان میں بھی 8 مارچ انہی حوالوں سے منایا جاتا تھا۔ اس دن خواتین کو مل بیٹھ کر عورتوں کے مسائل پر بات کرنے اور حکمت عملی طے کرنے کا موقع ملتا ہے۔ آج مجھے اپنی بہت پیاری دوست نگار شدت سے یاد آ رہی ہے جس نے پاکستانی عورت کو بااختیار بنانے، شعور اُجاگر کرنے کیلئے شہلا ضیاء کے ساتھ مل کر ’’عورت فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج عورتوں کے حقوق کی جدوجہد کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے۔ پاکستانی معاشرہ جاگیردارانہ، قبائلی رسم و رواج اور انتہاپسند مذہبی سوچ، فرسودہ رسم و رواج میں جکڑا ہوا ہے۔ ہمیں اس سوچ سے چھٹکارا پانے کیلئے نئے فکری انقلاب کی ضرورت تھی جس کے لئے نگار احمد نے زبردست کام کیا۔ پاکستان میں ضیاء الحق اور ان کے بعد جو سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں ان کو عورتوں کے حقوق، ان کی سماج میں برابری، فیصلہ سازی میں ان کی شرکت جیسی باتوں کا کوئی شعور نہیں تھا۔ ایسے وقت میں نگار احمد نے عورت فاؤنڈیشن کے حوالے سے عورتوں کو ان کے حقوق کی جانکاری دی۔ ان کی جدوجہد عورتوں کی تعلیم، صحت، معاشی خودمختاری، قانونی مسائل، سماجی مسائل، عورتوں پر ہونیوالے تشدد کیلئے ڈٹ کر کام کیا۔ انہوں نے صرف شہروں میں نہیں بلکہ پاکستان کے دیہاتوں میں بھی عورت کو جگایا اور اُسے بااختیار بنانے کیلئے جب جنرل مشرف نے لوکل گورنمنٹ کا قانون بنایا جس کی وجہ سے عورتوں کو 33فیصد نمائندگی کا حق ملا تو یہ ان کی مہم کا حصہ بن کر ان عورتوں اور اس کے ساتھ صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں پہنچنے والی عورتوں کو تربیت دینے کیلئے کام شروع کر دیا۔ دیہات میں کام کرنے والی 70% خواتین ہوں یا شہروں میں بے شمار خواتین جو غیرروایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں جن کو نہ گہنا جاتا ہے اور نہ Recognise کیا جاتا تھا ان کے لئے ’’ہوم نیٹ‘‘ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ غرض ہر سطح پر عورتوں کے حقوق کیلئے انتھک کام کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے‘‘ ۔
آج جب ہم 8 مارچ منا رہے ہیں تو پاکستان کی ’’کلارا زشینکن‘‘ کو یاد رکھیں جب جب عورت کے حقوق کی بات ہو گی نگار احمد کو ہم سب خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔