خادم اعلی کی ایک فتح اور مزید فتوحات کا انتظار

آخر کار کرکٹ میچ ہو گیا۔ یوں لگتا ہے اس شہر میں نہ تو ڈیفنس کا دھماکہ ہوا، نہ چیئرنگ کراس کی دہشت گردی ہوئی۔ کرکٹ کے بخار میں دہشت گردوں کے ا وسان بھی خطا ہو گئے، ادھر پوری قوم کا عزم تھا کہ کھیل ہو کر رہے گاا ور کھیل کا نظارہ بھی کریں گے۔ ہر چند تگ ودو بہت کرنا پڑی، فوج ، رینجرز، پولیس ، ہر کوئی الرٹ تھا، وزیر اعظم ، چاروں وزرائے اعلی، پھر میچ کیسے نہ ہوتا، ایسا ہی عزم اگر قوم ہر کام کے لے کر لئے تو کونساکام ہے،جونہیں ہو سکتا۔دہشت گردوں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو سکتے ہیں بلکہ ان کی فکر سے آزاد ہو کر کھڑے ہو سکتے ہیں تو باقی مسائل تو بہت چھوٹے ہیں اور وہ جان لیوا بھی نہیں ، انہیں ہم چٹکی میں سر انجام دے سکتے ہیں۔
شہباز شریف کو شاباش دی جانی چاہئے جنہوںنے لاہور کے دو کروڑ عوام کو دہشت گردوں کے خوف سے نجات دلوانے کے لئے ایک بڑا فیصلہ کیاا ور شاباش ہے ملکی افواج کی کہ انہوںنے قوم کو سرخرو کرنے کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی، اس ایکسر سائز میں پولیس کی ایکسر سائز بھی ہوگئی، اب چھوٹا موٹا ایونٹ وہ خود بھی سنبھال سکے گی، پولیس کے خفیہ اداروںنے بھی بھرپور کردار ادا کیا، دہشت گردوںکو سر اٹھانے کاموقع ہی نہیں دیا ، انہیں کمین گاہوںمیں جا لیا اور ایسا دبوچا کہ پورے پاکستان کو ایک کرکٹ میچ دیکھنے کا موقع میسرا ٓ گیا۔ ورنہ یہاں تو گلی ڈنڈا کھیلنا مشکل ہو رہا تھا۔بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم نے سارے انتظامات سے مطمئن ہو کر بیرونی دورے کی راہ لی،وزیر اعظم کے اس قدر مضبوط اعصاب ہیں کہ پانامہ کا ہنگامہ بھی انہیں کمزور نہیںکر سکا اور مک میں پے در پے دھماکوں کی نئی لہر سے بھی وہ ہراساں نہیں ہوئے ، اور میدان سج گیا۔ نجم سیٹھی کوبھی یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ کسی کے سامنے سر نہیں جھکائیں۔ آخر تو وہ اخبارنویس ہیں اور مہمل بات کرکے بھی داد سمیٹنے کا فن انہیں خوب آتا ہے۔ شیخ رشید ان کے بھی استاد نکلے، جوتے کا سامنا بھی کیا اورحریفوںکے کیمپ میں گھس کر کرکٹ کا تماشہ دیکھا ، وہ کٹی کر کے گھر بیٹھے رہتے تو وہ پذیرائی نہ ملتی جو انہوںنے قذافی ا سٹیڈیم کا رخ کر کے سمیٹ لی۔
میںنے جواری بھائیوں سے بہتیرا کہا تھا کہ وہ عوام کی جیب پر ڈاکہ نہ ڈالیں مگر ٹکٹوں کی فروخت سے لے کر ہر چوکے چھکے پر جوا ہوا، اصل جوا تو میچ کے انعقاد کا فیصلہ تھا۔ یہ جوا حکومت نے کھیلا اور اس نے یہ جوا جیت لیا، دہشت گرد اس جوئے میں بری طرح ہار گئے ایسے ہار گئے کہ دہشت گردوں کی سات پشتیں بھی کیا یاد کریں گی کہ کیسی مار پڑی تھی۔
خادم اعلی نے سینہ پھلا کر کہا ہے تو درست ہی کہا ہے کہ یہ پاکستان کی جیت ہے اور دہشت گردوں کی ہار ہے، انہوںنے دہشت گردوں کو للکارا ہے کہ وہ اپنی خیر منائیں اور پاکستان چھوڑ دیں۔ورنہ وہ تباہ ہو جائیں گے۔ خادم اعلی نے وفور جذبات سے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیاا ور آرمی چیف اور کور کمانڈر لاہور کا خاص طور پر شکریہ ادا کیا۔
خادم اعلی کی یہ شہرت مسلمہ ہے کہ وہ جو ارادہ کر لیتے ہیں، اسے توڑ نبھاتے ہیں۔انہوںنے ڈینگی کا خاتمہ کیا۔ میٹرو بنائی، اب ا ورنج ٹرین بن رہی ہے، بجلی کے منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں ، پہلے دانش اسکول بنے، کیا ہی اچھا ہو کہ خادم اعلی ان لوگوں کا بھی خیال کریں جو انہی کے صوبے کی ورکنگ بائونڈری پر آئے روز بھارتی گولہ باری کا نشانہ بنتے ہیں، ان کی جانیں جاتی ہیں، مال مویشی زخمی ہوتے ہیں ، گائوں چھوڑ کر پیچھے آناپڑتا ہے،اس دوران فصل برباد ہو جاتی ہے، خادم اعلی کو اپنی اس مظلوم رعایا کے تحفظ کے لئے بھارت سے بات کرنی چاہئے ، ورنہ فارن ا ٓفس کے ذریعے یہ مسئلہ اقوام متحدہ لے جانا چاہئے، مسئلہ پھر بھی حل نہ ہو تو وہ وزیر اعظم کو مشورہ دیں کہ بھارت کے خلاف طاقت استعمال کی جائے، اب آپ ہنس دیئے ہوں گے کہ فوج تو طاقت کا مظاہرہ کرتی ہی ہے اور کیا کیا جائے۔ اور کرنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ بھارت کو ایٹمی ا ور میزائیلی آنکھیں دکھائی جائیں، بھارت شرافت اور امن کی زبان نہیں سمجھتا ، اور جب ہم ایٹمی اسلحہ اور میزائل بنا ہی چکے ہیں تو کیا چودھری شجاعت کے بقول یہ شادی بیاہ پر پٹاخے بجانے کے کام آئیں گے، ہمارا ایٹمی اسلحہ اگر ہمارے شہریوں کا تحفظ نہیں کر سکتا تو پھر یہ کس کام کا۔
اسی طرح خادم اعلی پنجاب کے صوبے کو بھارت کی آبی دہشت گردی کا سامنا ہے، مرالہ ہیڈ ورکس پر پانی کی مقدار نصف سے کم ہو کر رہ گئی ہے، ہمارے کھیت بنجر ہوتے جا رہے ہیں اور زیر زمین پانی کی سطح سینکڑوں فٹ تک گر گئی ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے اختیارات کے ساتھ ساتھ فرائض میں بھی اضافہ ہو گیا ہے،اس لئے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلی نے جس طرح ہرقیمت پر کرکٹ میچ منعقد کروا دیا ہے،ا سی طرح وہ دیگر مسائل کو بھی حل کریں۔ ان کے رستے میںکوئی خاص رکاوٹ بھی نہیں، بڑے بھائی وزیر اعظم ہیں اور جہاں ان کی مدد کی ضرورت ہو گی، وہ انہیں لازمی مل جائے گی،۔ حل طلب مسائل میں کا لا باغ کا بھی مسئلہ ہے جسے خیبر پی کے اس لئے نہیں بننے دیتا کہ اس سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، نوشہرہ ستر برس پہلے بھی ڈوبا تھا جب کالا باغ ڈیم نہیں تھا اور دو ہزاردس میں نوشہرہ پھر ڈوبا، تب بھی کالا باغ ڈیم نہیں تھا اور کالاباغ ڈیم نہیں ہو گا تو تب بھی طوفانی بارشوں کی وجہ سے نوشہرہ ڈوبتا رہے گا۔، اس لئے کہ فالتو پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیاگیا، وزیر اعلی پنجاب کو کرکٹ میچ کی طرح کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا بیڑہ اٹھانا چاہئے۔جو وزیر اعلی ایک شعبے میں کامیاب ہو سکتا ہے، وہ ہر شعبے اور ہر منصوبے میں کامیاب ہو سکتا ہے، ذرا خادم ا علی تجربہ تو کر دیکھیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...