گنے کے کاشتکاروں کے حق میں لاہور ہائیکورٹ کامتحسن فیصلہ!

شعبہ زراعت پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔ پاکستان کی70فیصدآبادی اس شعبہ سے تعلق رکھتی ہے مگر بدقسمتی سے یہی اہم شعبہ حکمرانوں کی عدم توجہی کاشکار ہے۔ کاشتکاروں کوہرسیزن میں تنگ کرنے کاسلسلہ جاری ہے۔ کپاس کاسیزن تومسائل کے انبار، گندم کا سیزن ہے توپورے نرخ نہیں ملتے۔ گنے کاسیزن ہے تو بروقت اور مکمل ادائیگیاں نہیں ہوتیں۔ شوگر مل مالکان دونوں ہاتھوں سے کسانوں لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سارے عمل میں چونکہ حکمران خاندان کی اپنی شوگر ملیں بھی ملوث ہوتی ہیں لہٰذا متاثرہ کاشتکاروں کی کسی درجے پر شنوائی نہیں ہوتی۔ آج کل گنے کے کسان شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ کسان کو اپنی فصل کی مناسب قیمت نہیں مل رہی۔ کسان120سے140روپے من گنا فروخت کرنے پر مجبور ہے جبکہ گنے کی کٹائی 40 روپے من کرایہ ٹرک لوڈ مزدوری کاخرچہ70روپے من تک جا پہنچتا ہے۔ اس طرح کسان گنا فروخت کرکے خسارہ اٹھا رہا ہے اور مسلسل اسے نقصان ہو رہا ہے کیونکہ گنے کے لیے زمین کی تیاری مہنگی کھادیں، مزدوریاں اس کے لیے مزید خسارے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس لیے متعدد کسانوں نے گنا کاشت کرنے سے توبہ کر لی ہے۔ ہم نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی کہ کسانوں سے شوگر ملیں 180 روپے من گنا خریدیں۔ الحمدللہ اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ سے ہمارے حق میں فیصلہ آچکا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ساجد محمود سیٹھی کی عدالت نے شوگر مل مالکان کے خلاف رٹ پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکومت پنجاب اور کین کمشنر کو حکم دیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر پنجاب بھر میں کسانوں سے180روپے فی من گنے کی خریداری کویقینی بنایا جائے اور اس سلسلے میں عمل درآمد کی رپورٹ بھی عدالت عالیہ کو پیش کی جائے۔ عدالت عالیہ نے اس ضمن میں کین کمشنر کا پاس کیاگیا آرڈر اور پنجاب حکومت کے جمع کرائے گئے جواب کو بھی مسترد کردیا۔ مزیدبرآں لاہور ہائیکورٹ نے جماعت اسلامی کی طرف سے پنجاب بھر کے کسانوں کے جمع کرائے گئے بیان حلفی کو بھی فیصلے کا حصہ بنا دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کافیصلہ کسانوں کی فتح ہے۔ جماعت اسلامی انشاء اللہ اس سلسلے میں اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ حکومت پنجاب اب لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر فوری عمل درآمد کرے، شوگرمل مالکان کو پابندکرے کہ وہ کسانوں کے اربوں روپے کے واجبات ادا کریں۔ حکومت پنجاب اپنے جاری کردہ نوٹفکیشن کے مطابق گنے کے کاشتکاروں کو180 روپے فی من کے حساب سے قیمت دینے میں نہ صرف بری طرح ناکام رہی ہے بلکہ وہ عملاً اس لوٹ مار میں شوگر ملز مالکان کی پشت پناہی کررہی ہے اور کسانوں بالخصوص گنے کے کاشتکاروں کو دیوار سے لگانے کے لیے پوری طرح تلی ہوئی ہے جونہ تو گنے کے کاشتکاروں کو سرکاری ریٹ پر ادائیگی کررہی ہے نہ ہی (CPRs) جاری کررہی ہے، جوکسانوں کا قانونی حق ہے اور نہ ہی موجودہ اور پچھلے واجبات کی ادائیگی کر رہی ہے۔ عدالت عالیہ لاہورکاحکم آنے کے باوجود بھی، حکومت پنجاب اور شوگرملزمالکان گنے کے کاشتکاروں کوسرکاری ریٹ180 روپے فی من کے حساب سے ادائیگی کرنے سے کھلم کھلا انکاری ہیں، نہ صرف سرکاری قیمت دینے سے انکاری ہیں بلکہ ناجائز کٹوتیاں کر کے، CPRs جاری نہ کر کے، کسانوں کوکئی کئی دنوں تک میلوں لمبی لائنوں میں کھڑا کر کے اور دیگر مختلف حیلوں بہانوں سے تنگ کرکے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور کسانوں کو اس بات پر مجبور کررہے ہیں کہ آئندہ کوئی گنے کی کاشت نہ کرے۔ گنے کے کاشتکاروں کو سرکاری ریٹ نہ دینے، بروقت گنانہ اٹھانے اور موجودہ اور پچھلی ادائیگیاں نہ کرنے سے صرف گنے کی فصل کانقصان نہیں ہورہا ہے بلکہ اس دفعہ اگلے سال میں ہمارے ملک کو قحط کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ہمارے وطن عزیز کی لاکھوں ایکڑزرعی زمین گندم اگانے سے بھی محروم ہوگئی ہے کیونکہ جہاں گناکھڑاہے وہاں گندم کاشت ہونی تھی اور اب توگندم کی بیجائی کا موسم نکل چکا ہے اور اس طرح لاکھوں ایکڑ پر جہاں گناکھڑاہے وہاں گندم کاشت نہیں ہو گی حتیٰ کہ بعض مظلوم کسانوں نے مایوسی کے عالم میں اپنے گنے کے کھیت جلا دیئے اور نکلتے موسم میں گندم کی بیجائی کی۔ ضروری ہے کہ قانون کے مطابق CPRs کے اجرا کو یقینی بنوایا جائے، شوگر ملزمالکان کے نام گنے کے کاشتکاروں کی تمام موجودہ اور پچھلی بقایارقم کی ادائیگی کروائی جائے۔ ان احکامات پر عملدرآمدکے لیے سپریم کورٹ کے کسی معزز جج صاحب کو بطور نگران مقرر کیا جائے، مظلوم کسانوں کو حکومت وقت پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ شوگر ملز مالکان اور حکومت دونوں مل کربے آسرا کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے بری طرح لوٹ رہے ہیں۔ سب سے اہم بات جس کا حکومت کونوٹس لینا چاہئے یہ شوگر مل ملیں حکومت پرمٹ کا بہانہ کرکے غیر مسلموں کے لیے الکحل تیارکرتی ہیں جس سے کروڑوں روپیہ کماتے ہیں مگرافسوس ہے کہ تمام شوگر مافیا اس بات پر متفق ہے کہ کسان کی جمع پونجی لوٹی جائے۔ شوگر ملزمالکان گنے کی خریداری اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کررہے ہیں۔ مختلف موضع جات پر چند سنٹر بنا کر اپنے ایجنٹوں کو پرمٹ جاری کر دیئے ہیں۔ ایجنٹ ایک پرمٹ پر 5000 روپے وصول کرتا ہے۔گنے کاٹرک جب شوگر مل کے گیٹ پر جاتا ہے اس کے گنے پر کئی اعتراضات لگائے جاتے ہیں پھر ایک ٹرک جو 500 من گنا لوڈکرتاہے اس سے70 سے80من کٹوتی لی جارہی ہے۔ یہ ظلم ہر سال ہوتاہے۔چند کسان تنظمیں احتجاج کرتی ہیں مگر حکمرانوں اور عوام کی توجہ حاصل نہیں کر پاتیں۔ کسانوں کو متحد اور منظم ہونا ہو گا۔ بڑے بڑے کسان کئی درجن مربع زمین کے مالک بینکوں کے مقروض ہیں۔ دوسری طرف مزارع کی زندگی اجیرن بن کر رہی گئی ہے۔ ہزاروں مزارع نسل درنسل مقروض چلے آرہے ہیں۔ یہ اپنے بچوں کی شادیاں قرض لے کر کرنے میں مٹے دار کسان بھی مشکلات میں گیا کیونکہ فی ایکڑ زمین کامٹہ کم ازکم ڈیڑھ لاکھ روپے ہے۔ فی ایکڑگنے کی کاشت کٹائی، کرایہ، مزدوری تمام اخراجات چار لاکھ بنتے ہیں۔ اس سال تمام کسان مالک سے مزارع اور مٹے دار تک سب خسارے میں ہیں، دوسری طرف حکومت کسانوں کے لیے341ارب روپے خرچ کرنے کااعلان کرتی ہے اور کروڑوں روپے سے اس کی اشتہار بازی کی جا رہی ہے تاکہ عوام سمجھیں کہ حکومت کسان کو ریلیف دے رہی ہے۔ دراصل حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں صنعت کاروں کو فائدہ دے رہی ہیں اور کسانوں کولوٹنے کے لیے ان کی مدد کر رہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن