کلے، ہارس ٹریڈنگ اور بے چاری جمہوریت

ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کئی سال کی ٹال مٹول کے بعد پہلا بلدیاتی الیکشن بڑی دھوم دھام سے کروایا پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے دور رکھنے کے مختلف ضابطے جاری کئے گئے یہ پہلا اور اب تک واحد الیکشن تھا جس میں یہ کہا گیا ہر امیدوار اپنا بیلٹ باکس خود پولنگ اسٹیشن پر پہنچائے۔ اُن دنوں لاہور شہر میں میونسپل کمیٹی کے اراکین کی تعداد 100 ہوا کرتی تھی۔ پیپلز پارٹی سے وابستگی رکھنے والے امیدواروں نے اپنے گروپ کی شناخت کیلئے ’’عوام دوست‘‘ نام رکھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہر گلی محلے میں ’’عوام دوست‘‘ امیدوار بڑے بڑے جلسے جلوس اور عوام میں پذیرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے یہ دیکھ کر ضیاء الحق نے مزید ضابطے ایجاد فرمائے تمام تر خرابیوں کے باوجود جب نتائج سامنے آئے تو 100 میں سے 72 سیٹیں عوام دوست امیدواروں کو ملیں۔ 28 سیٹیں میاں شجاع الرحمن جو ضیاء الحق کے حامی تصور کئے جاتے تھے ان کا گروپ حاصل کر سکا اب میئر کا انتخاب ہونا تھا تو ڈپٹی کمشنر کو اختیار دیاگیا کہ جو ’’عوام دوست‘‘ ٹائون ہال میں داخل ہونے کی کوشش کرے اسے فوری طور پر ڈس کوالیفائیڈ کر دیا جائے یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے 72 عوام دوست ممبرز کو ٹائون ہال میں داخل نہیں ہونے دیا گیا اس طرح 28 اراکین کے حمایت یافتہ میاں شجاع الرحمن لاہور کے میئر منتخب ہوئے۔ اس بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ دیکھ کر ضیاء الحق نے اعلان کیا کہ ان کے حمایتی اراکین اسمبلی کو اپنے کلے مضبوط کرنے چاہیں اس کے لیے خطیر رقم فراہم کی گئی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو قانون سازی، قومی اور بین الاقوامی سطح کے کام کرنے کی بجائے گلی محلے کی نالیوں اور سیوریج کے نام پر کروڑوں روپے دے کر ان کا مزاج اور کردار بدل دیا چنانچہ کارکنوں پر سرمایہ کاری کا نتیجہ دوسرے بلدیاتی انتخاب کے موقع پر صاف نظر آیا جو کارکن پیپلز پارٹی کے لیے سرگرم رہے تھے اور امیدوار سے چائے کا ایک کپ بھی پینا پسند نہیں کرتے تھے وہ کیش اور کھابے کی نذرہوگئے یہاں سے کلے مضبوط کرنے کا عمل سیاست میں داخل ہوتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے کلے فولاد بن گئے۔ ضیاء الحق کے سیاسی جانشینوں نے اسی سوچ اور طرز عمل کو آگے بڑھایا اور 1989ء کے عام انتخابات کے بعد ’’چھانگا مانگا‘‘ تیکنیک متعارف کرائی گئی۔ محض چند ماہ بعد آپریشن جیکال کا جال بچھایا (اس دوران اسامہ بن لادن سے بے نظیر حکومت گرانے کیلئے پیسوں کا معاملہ سامنے آیا۔ اور پھر جب مرحوم پیر صاحب پگاڑا نے آپ کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کا ارادہ کیا تو تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کیلئے آپ نے ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کا سہارا لیا۔ یہ سب آپکے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل اور آپکی ’’چھانگا مانگا‘‘ اور دوسری تیکنیکوں کا نتیجہ ہے جو 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں کھل کر سامنے آیا ہے۔ سینیٹ کے انتخاب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اعلیٰ جمہوری روایات، ہلال حرام، صحیح غلط اور اخلاقی اقدار وغیرہ بے معنی چیزیں ہیں۔ انسانی ہمدردی یا اجتماعی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے پروگراموں کی جگہ ذاتی، گروہی طبقاتی مفادات اہمیت حاصل کر چکے ہیں۔ آج معاشرے میں جعلی اور مضر صحت کھانے، ادویات اور دوسری اشیاء پوری ڈھٹائی کے ساتھ مارکیٹ میں فروخت کی جا رہی ہیں پینے کا صاف پانی، تعلیم کا نظام کمرشلائز کر دیا گیا ہے ہسپتالوں میں عوام کو طبی سہولت میسر نہیں، پرائیویٹ ہسپتال اور ڈاکٹر اتنے مہنگے ہیں کہ یہاں صرف وہ علاج کروا سکتے ہیں جن کے پاس ناجائز وسائل کی بھر مار ہو۔ 30/35 سال پہلے شہر میں ’’نامی گرامی‘‘ لوگوں نے اپنے علاقے مخصوص کر رکھے تھے چھوٹی موٹی گینگ وار بھی ہو جاتی تھیں اب وہ تمام لوگ سیاسی کارکن بن چکے ہیں شہر میں ہی نہیں پورے ملک میں سیاسی کارکن وہ سارے کام منظم طریقے سے کر رہے ہیں جو پہلے انفرادی طور پر کیا کرتے تھے شہر میں اگر آپ کو مکان بنانا ہے تو آپ سے کہا جاتا ہے کہ مکان بنا لو یا نقشہ منظور کروا لو۔ سڑکوں پر جگہ جگہ ٹریفک کا اژدھام ہے، سیاسی ورکرز جو اب نام نہاد ٹھیکے دار بن چکے ہیں۔ پارکنگ کے نام پر بھتہ وصول کرتے نظر آتے ہیں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور زکوٰۃ فنڈ کے علاوہ دیگر محکموں کے فنڈز جس بے دردی سے بے دردیغ استعمال ہو رہے ہیں اس کی کوئی نظیر ماضی میں نظر نہیں آتی۔ قدم قدم پر یہ محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی حکمران موجود ہیں، حکومتی مشینری، بیوروکریسی موجود ہے لیکن ریاست کی بجائے سب ذاتی مفادات کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ملک میں ووٹرز اپنا حق رائے دہی تمام تر دھاندلیوں اور بے قاعدگیوں کے باوجود 30/35 فیصد سے زیادہ استعمال نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو جو 30/35 ضروری اصلاحی تجاویز دی تھیں ان پر الیکشن کمیشن نے کوئی عمل نہیں کیا ،سینیٹ کے تازہ ترین انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیلا جا رہا ہے ایسا تو آمریت کے دور میں بھی نہیں ہوا۔ آئین کو اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق تبدیل کرنے کی کھلے عام باتیں ہو رہی ہیںجب کروڑوں روپے لگا کر کوئی ممبر بنے گا تو اس کیلئے اصول، اخلاق اور ایمانداری بے معنی باتیں ٹھہریں گی۔ اسے تو سب سے پہلے اپنی سرمایہ کاری بمعہ ہزار گنا منافع کے حاصل کرنی ہے۔ اسکی بلا سے اسکے نتیجے میں بوم بسے یا ہُما رہے۔ پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے بھارت اور دوسرے پاکستان دشمن جو کوششیں کر رہے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ جغرافیائی اہمیت کے سبب پاکستان اس وقت دشمنوں کی نظر میں انتہائی خطرناک ملک بن چکا ہے دشمن کے اندرون ملک بیٹھے ہوئے کارندے اور سہولت کار جمہوریت کے نام پر جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ دشمن کی مدد کرنے کے مترادف ہے اور ریاست کے مفاد میں نہیں ہے یہ کشمکش کیا گل کھلائے گی اور ا کے نتیجے میں پاکستان کے عام شہریوں پر کیا گزرے گی اشرافیہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ ہمارے وہ ادارے جو ملک کی سلامتی اور مستقبل کی پالیسیاں بنانے کے ذمہ دار ہیں انکی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات تو سب جاتے اور مانتے ہیں کہ پاکستان ہے تو سب کچھ ہے۔ بصورت دیگر ہندوستانی مسلمانوں پر جو کچھ بیت رہی ہے وہ بھی سامنے ہے آج دنیا میں جو تباہ حالی نظر آتی ہے وہ صرف اور صرف مسلمان ممالک میں ہی کیوں ہے۔ عدلیہ کی توہین کے نتیجے میں خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب پاکستانی عوام کو ’’بغاوت‘‘ پر اُکسایا جا رہا ہے۔ جمہوریت کے نام پرغاصبوں، منافقوں اور مفاد پرست اشرافیہ جن میں بیورو کریسی بھی شامل ہے، اپنا انجام — نوشتہ دیوار پڑھ لیں!

ای پیپر دی نیشن