پاکستان 1947ء میں اپنے قیام کے وقت سے بھارتی جارحیت اور بطور ریاست پاکستان کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لئے بھارتی کوششوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔ جس کی ابتداء بھارت نے برطانوی ہند کی تقسیم کے لئے طے شدہ فارمولے کے مطابق پاکستان کے حصے میں آنے والی رقوم‘ فوج کیلئے اسلحہ کو پہلے بہانوں سے روک کر شروع کی۔ پاکستان کے خلاف جارحیت کا دوسرا حصہ پنجاب کی تقسیم کے موقع پر بعض تحصیلوں کو ہندو اور انگریز ملی بھگت کے نتیجے میں ہونے والی زبردستی کی ہجرت کے دوران پاکستان کی طرف آنے والے مسلمانوں کے قافلوں پر کئے جانے والے منظم حملوں کی صورت میں سامنے آئی۔ ان حملوں میں لاکھوں بے گناہ نہتے مسلمان بے دردی سے قتل کر دئیے گئے۔ مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتیوں کا نشانہ بنایا۔ ہزاروں مسلمان بچیاں اغوا کر کے سکھوں و ہندوؤں نے جبراً اپنے پاس رکھ لیں۔ بعدازاں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تقسیم ہند کے فارمولے کا ایسا سیاہ باب ہے جسے پڑھ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ گو پاکستان میں بھارت کی محبت میں گرفتار طبقے یہ سب نہیں مانتے۔ انہوں نے گزشتہ برسوں میں پوری کوشش کی کہ کسی طرح تقسیم ہند کے تلخ حقائق کو تاریخ سے حزف کرا دیا جائے۔ اس کے لئے ’’امن کی آشا‘‘ کے تحت نصاب کی کتابوں سے تاریخ پاکستان میں ہجرت کے حوالے سے ابواب ہٹانے جیسی کوششیں کی گئیں تاکہ پاکستان کی نئی نسل کے ذہنوں میں بھارت سے نفرت کی بجائے توسیع پسندانہ عزائم کی حامل اس جارح ریاست کے روشن پہلو کو اجاگر کیا جا سکے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کا تیسرا حصہ 22 اکتوبر 1947ء کو فوج کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر پر قبضے کی کوشش ہے جوکہ بلاوجہ نہیں تھا۔ بھارت اگر اس وقت پورے کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا توایک طرف پاکستان میں زراعت کی موت واقع ہو جاتی۔ کشمیر سے آنے والے تمام دریاؤں پر بھارت کا قبضہ ہوتا۔ چین کے ساتھ پاکستان کا زمینی راستہ منقطع ہو جاتا۔ بھارت افغانستان کی پٹی د! خان سے ملنے والی سرحد کی بدولت افغانستان کا ہمسایہ ٹھہرتا۔ معاشی مشکلات کی وجہ سے پاکستان کا بھارت پر انحصار بڑھ جاتا جس کی وجہ سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کی حیثیت بھوٹان‘ نیپال یا مالدیپ جیسی ہی ہوتی اور بھارت کے متعصب ہندو لیڈروں کی پیشگوئی سچ ثابت ہو جاتی کہ داخلی معاشی و انتظامی ناکامیوں کی بدولت پاکستان جلد ہی واپس بھارت میں شمولیت کے لئے کانگرس جماعت سے رجوع کرنے پر مجبور ہو جائے گا لیکن پاکستان نے بھارتی فوج کا ریاست جموں و کشمیر میں راستہ روکا اور ایک تہائی حصہ بھارت کے قبضے میں جانے سے بچا لیا۔ اسنے بھارتی قیادت کے منصوبوں پر پانی ہی نہیں پھیرا توسیع پسندانہ بھارتی عزائم کی راہ میں آہنی چٹان کی مانند کھڑا ہو گیا۔ پاکستان کے پاس اسلحہ و گولہ بارود کی کمی اور محدود عسکری وسائل کی استعداد کے باوجود پاکستان نے ریاست جموں و کشمیر میںایک سال دو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں بھارت کے چھکے چھڑا دئیے۔
پاکستان کے ہاتھوں شکست اور باقی ماندہ کشمیر کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر بھارت جنگ بندی کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مدد کے لئے پہنچا۔ جہاں بھارت کی مرضی سے کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک کے انتخاب کے لئے حق خودارادیت دینے کے لئے قرارداد منظور کی گئی۔ اقوام متحدہ میں بھارتی قیادت کا رونا دھونا اور قرارداد کو منظور کرنے کا تاثر محض دھوکا اوروقت حاصل کرنے کی کوشش تھی جسے بھارت نے اپنی مغربی ممالک خصوصاً برطانیہ کی حمایت سے کامیابی سے ہمکنار کیا اور جنگ بندی معاہدہ پر عملدرآمد کے ساتھ ہی اس نے پاکستان کی سلامتی پر وار کے لئے مختلف ہتھکنڈوں کو بروئے کار لانے کا آغاز کر دیا۔ ہندوؤں کی تاریخ ان کے لئے چانکیہ کی تعلیم اور ان کی خصلت کا تجزیہ کریں تو ایک بات بڑی واضح نظر آتی ہے کہ ہندو میدان جنگ میں لڑنے کی بجائے سازشوں سے فتح حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کے لئے مکاری‘ چاپلوسی‘ دھوکہ دہی‘ چھپ کر وار کرنے اور سازشیں اس کا اصل ہتھیار وہی ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اور ہمسائیگی کی گزشتہ 70 برسوں پر محیط تاریخ کا جائزہ لیجئے۔ تو اندازہ ہو گا کہ بھارت نے پاکستان کی بطور آزاد ریاست شناخت اور سلامتی کو ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘ دریاؤں کا پانی روکنے سے لے کر بلوچستان کی علیحدگی کے لئے وہاں اپنے سرکاری دہشت گردوں کے ذریعے سازشیں جاری رکھتے ہوئے سفارتی سطح پر پاکستان کے حکمرانوں سے دوستی تک بھارت کا ہر اقدام مفلوف اور پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال کئے جانے والے ہتھکنڈوں سے بھرا نظر آتا ہے۔ ان تمام حقائق سے واقفیت رکھنے کے باوجود پاکستان میں بھارت کے لئے ’’ریشہ خطی‘‘ کی حد تک محبت رکھنے والے افراد کی موجودگی بھارت کی ’’چانکیہ حکمت عملی‘‘ ہندوؤں کے مکارانہ طرز عمل کی بڑی مثال ہے کہ آج بھی پاکستان کے بھارت کیساتھ کشیدہ تعلقات کا ذمہ دار پاکستان کی مقبوضہ کشمیر سے متعلق پالیسی کو قرار دیا جاتا ہے۔ حالانکہ بھارت کا پاکستان کے خلاف بغض ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کا محتاج نہیں۔ ظاہری طور پر بنگلہ دیش سے بھارت کے نظر آنے والے دوستانہ تعلقات وہاں منظم ہتھکنڈوں سے اقتدارپر مسلط کی گئی حسینہ واجد کے عرصہ اقتدار تک ہی محدود ہیں۔ ورنہ بھارت اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ بنگلہ دیش میں عوام کی اکثریت خود کو بھارت کا غلام تصور کرتی ہے کیونکہ حسینہ واجد کی طرف بنگلہ دیش آنے والے پانی اور بہت سے سرحدی علاقوں پر بھارتی مؤقف تسلیم کرنے کے علاوہ بھارت کو کلکتہ سے اگرتلہ تک زمینی راستے کی سہولت فراہم کرنا جس کے لئے جون 2015ء میں معاہدہ عمل میں آیا۔ ایسے اقدامات ہیں جس نے بنگلہ دیش کی آزادی بھارت کے پاس گروی رکھ دی ہے۔ برما‘ بھوٹان‘ نیپال ہوں‘ سری لنکا یا چین ان سب کے ساتھ بھارتی کشیدگی کی وجہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ نہیں بلکہ ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے حوالے سے بھارتی متعصب ہندو قیادت کا وہ توسیع پسندانہ منصوبہ ہے۔ بھارتی حکمران جس کی راہ میں پاکستان کو بطور آزاد ریاست حائل سمجھتے ہیں کیونکہ پاکستان کا استحکام بھارت میں چلنے والی درجن بھر آزادی کی تحریکوں کو حوصلہ دینے کا سبب بن رہا ہے اور اب گورکھے‘ سکھ اور بنگلہ دیش کے پار بھارت کی سات ریاستوں میں آباد قومیں بھی ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی طرز پر بھارت سے گلوخلاصی چاہتی ہیں۔قائداعظم کے اس فرمان کے بعد کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہی نہیں پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ ہے لیکن بھارت پاکستان کو اپنی سلامت کا مسئلہ سمجھتا ہے۔ اس کی جنگی تیاریاں ہوں یا خارجہ پالیسی اس پاکستان مخالف بیانیے کے گرد ہی گھومتی ہیں جس کا اظہار بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے 7 فروری 2018 کو پارلیمنٹ میں سالانہ بجٹ سیشن کے موقع پر 1947 میں تقسیم ہند کو موضوع بناتے ہوئے جواہر لال نہرو اور کانگرس جماعت کی حکمت عملی پر اعتراض کی صورت میں کر دیا۔ یہ مودی نہیں بھارت کا وہ پاکستان مخالف Mindset ہے جس نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔اپنی تقریر میں مودی نے کانگرس کو جس انداز سے رگیدا اس کا بنیادی نقطہ ایک طرف نہرہ خاندان کی تضحیک تو دوسرا پاکستان کا قیام تھا۔ مودی نے کہا کہ اگر 1947 میں آزادی کے وقت کانگرس جماعت کی ناقص پالیسیوں نے برصغیر کا نقشہ بدل کے رکھ دیا جس کا خمیازہ بھارت آج تک پاکستان کی صورت میں بھگت رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ اگر تقسیم کے بعد نہرو ملک کا وزیراعظم ہوتا تو پورا کشمیر بھارت کا حصہ ہوتا۔ بھارتی وزیراعظم کی اپنی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر پاکستان کے متعلق بھارتی حکمرانوں کے ذہن کی عکاس ہے جس کے بعد پاکستان میں بھارت سے ہر قیمت پر دوستی کا دم بھرنے والوں کی آنکھیں ضرور کھل جانی چاہئیں۔