38سالہ سفربخیر ہوا

من تن شدم تو جاں شدی‘ نوائے وقت کے ساتھ میرا ذہنی وفکری رشتہ بہت ہی اٹوٹ انگ ہے‘ یہ صحافتی رشتہ میرے لیے محض روزی روٹی کا ذریعہ ہی نہیں رہا بلکہ میرے نظام فکر میں مادر علمی کا درجہ بھی اسے حاصل ہے۔ میں اخباری حلقوں میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ نوائے وقت ایک اخبار ہی نہیں‘ ایک دبستان اور فکری ونظری ادارہ ہے جو اس گھاٹ کا پانی پی لے وہ زندگی میں کبھی ناکامی کا منہ نہیں دیکھتا۔ نوائے وقت میر ے رگ وپے میں اس حد تک سرایت کر چکا ہے کہ اسے فراموش کرنا میرے بس کی بات نہیں‘ اسکے ساتھ میری والہانہ وابستگی کی داستان کا کینوس کم وبیش 38 برسوں پر پھیلا ہوا ہے‘ جس میں ایک دن تو کیا ‘ ایک لمحے کا تعطل بھی پیدا نہیں ہوا۔ قریباً چار دہائیوں پر محیط اس کہانی کا ایک پڑاؤ 3 مارچ 2018ء کو اختتام تک پہنچا کہ میں نوائے وقت کی باقاعدہ ملازمت سے بحسن وخوبی ریٹائر ہوگیا ہوں۔ میرا دل اگرچہ افسردہ اور بوجھل ہے کہ ملازمت کا ایک دیرینہ رشتہ اُس نہج پر پہنچا جب مجھے ریٹائر ہونا ہی تھا‘ تاہم ازحد خوشی اور مسرت اس بات کی ہے کہ اللہ کریم نے مجھے 38 برسوں پر پھیلی ہوئی ان ساعتوں میں عزت وآبرو عطا فرمائی‘ میں نے خوب میلہ لوٹا اور اپنی مرضی ومنشاء کی صحافتی زندگی گزار کر عزت وتوقیر کے ساتھ ریٹائر ہوا۔ بھرا میلہ چھوڑ کر جانا بھی میری ایک تمنا تھی جو اللہ کریم نے پوری کر دی۔
پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے 80 کی دہائی کے وہ اولین دو سال یاد ہیں‘ جب میں ہفت روزہ حرمت کا ڈپٹی ایڈیٹر تھا اور مرحوم زاہد ملک کے ساتھ کام کررہا تھا‘ نوائے وقت میں میری آمد اسکے بعد ہوئی‘ مرحوم اظہر سہیل مجھے ایک دن اچانک حرمت کے دفتر سے اُٹھا کر نوائے وقت آفس لے آئے اور کہا اب یہاں کام کرو۔ میں نے کہا زاہد ملک سے اجازت تو لے آؤں‘ بولے اجازت ضرور لے لو لیکن اب کام تم نے میرے ساتھ یہاں ہی کرنا ہے ‘ جب نوائے وقت راولپنڈی کا دفتر بنک روڈ صدر میں شملہ کلاتھ بلڈنگ میں ہوا کرتا تھا۔ کتابت کا دور تھا اور ہر کام دستی ہنر مندی کا مرہون منت تھا۔ اول میری ملاقاتیں بشیر سوہاوی‘ ناصر بخاری اور استاد سلیم رفیقی سے ہوئیں۔ ان سب مرحومین کا شمار اس وقت اردو صحافت کے باون گزوں میں ہوتا تھا۔ پھر جب حلقہ احباب وسیع ہوا تو مقصود غالب، نوازرضا‘ بشارت علی سید‘ صفدر عباس‘ اقبال زیدی اور ساجد حسین شاہ سے محفلیں رہنے لگیں۔ ان سب میں سے گہری دوستی رشید آزاد مرحوم کے ساتھ استوار ہوئی۔ جو بے تکلف اور محبتوں سے لبالب بھی تھی۔ میری ڈیوٹی اگر چہ شعبہ میگزین میں اظہر سہیل کے ساتھ تھی لیکن رہن بسیرا تمام شعبوں میں تھا‘ خوب کھانا پینا اور چائے چلتی‘ صبح دس گیارہ بجے دفتر آنا ہوتا اور پھر رات گیارہ بارہ بجے گھر واپسی ہوتی۔ ہنسی مذاق‘ گپ شپ اور انتھک کام کا دور دورہ ہوتا‘ لطیفہ بازی کے لیے مرحوم انوارفیروز‘ صفدر عباس‘ اقبال زیدی‘ خلیفہ افتخار اور ماجد سیٹھی ہی کافی تھے‘ جملہ بازی ایسی کہ لوگ لوٹ پوٹ ہو جاتے ‘ مجھے یاد ہے میگزین سیکشن تیسری منزل پر سیڑھیوں کے بالکل سامنے تھا۔ جون جولائی کے مہینے میں ایسی سخت گرمی پڑتی کہ کمرہ تندور بن جاتا۔ ایک دن کوئی ملاقاتی ہمارے کمرے میں آیا اور پوچھنے لگا یہاں سے اخبار نکلتا ہے؟ اظہر سہیل نے برجستہ جواب دیا نکلنا تو یہاں سے کلچہ چاہئیے لیکن ہم اخبار نکالتے ہیں‘ زمانہ وہ تھا کہ جب اخباری صنعت سے وابستہ لوگ بہت جفاکش اور محنت آزما ہوا کرتے تھے۔ صحافت ایک گلیمر کی طرح تھی‘ جبھی تو میں اڈہاک پر لیکچرر شپ چھوڑ کر محض گلیمر کی خاطر خارزار صحافت میں در آیا اور پھر یہیں کا ہوگیا۔میں اڑھائی سال کا تھا کہ پولیو کا شکار ہو کر جسمانی طور پر معذور ہوگیا لیکن اللہ کریم کا خاص کرم دیکھئے کہ بچپن سے لے کر آج تک خود کو کبھی اس نہج پر دیکھا نہ پرکھا‘ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ میں کسی جسمانی معذوری کا شکار انسان ہوں‘ قدرت نے ہر لمحہ مجھے اتنی ہمت‘ طاقت اور توانائی بخشی کہ سو فی صد تندرست اور توانا آدمی کی طرح زندگی گزاری‘ کبھی جسمانی معذوری کے نام پر کسی سے کوئی رعایت لی‘ نہ ہی مراعات کا طلب گار ہوا۔ نوائے وقت میں ہمیشہ سر اُٹھا کر اپنے فرائض منصبی ادا کرتا رہا۔ دفتر کو اپنا گھر سمجھا‘ ملازمت کا خوف تو کبھی ہوا ہی نہیں‘ بیسیوں نئے اخبار نکلے‘ جانیوالے نئی منزلوں کی جانب زائد تنخواہ کیلئے جاتے رہے لیکن میں‘ بشارت علی سید، سلیم تہیم اور نوازرضا چار لوگ ایسے تھے کہ جم کر نوائے وقت میں ہی کام کرتے رہے‘ زرگری کا طمع ہمیں کبھی بھی ادھر سے اُدھر نہ لے جا سکا۔ اس میں ہمارا کمال نہیں‘ سارا اعجاز مرحوم مجید نظامی کا تھا‘ جنہوں نے کبھی ہم پر دباؤ ڈالا‘ نہ سرزنش کی‘ ہمیں کام کرنے کیلئے ہمیشہ فری ہینڈ ملا۔ میں نے میٹرک کے بعد ہی اپنے باطنی مطالبے کی روشنی میں فیصلہ کرلیا تھا کہ صحافی بنوں گا یا مدرس‘ میرے لاشعور کی یہ جگمگ مجھے ان دونوں کوچوں میں لے آئی‘ نوائے وقت میں وارد ہوا تو میں محض ایک گریجویٹ نوجوان تھا‘ ملازمت کے دوران ہی میں نے ایم اے اُردو کیا تو دو ایم اے اور کر ڈالے‘ پھر مجھے ایک مہربان دوست نے مشورہ دیا کہ ایم اے کے ڈھیر لگانے کی بجائے ایم فل کرو‘ بچپن میں‘ میں نے درس نظامی کی کتابیں سبقاً پڑھی تھیں‘ جن میں گلستان‘ بوستان‘ مثنوی‘ رومی اور زیب النساء کا دیوان مخفی بھی شامل تھا۔ مجھے فارسی زبان وادب سے ہمیشہ والہانہ لگاؤ رہا ہے‘ لہذا جب میں نے ایم فل کا ارادہ کیا تو میرے قدم اضطراری طورپر شعبہ اقبالیات کی جانب چل پڑے‘ وہاں پروفیسر ڈاکٹر صدیق شبلی نے میری حوصلہ افزائی کی۔ ایم فل اقبالیات میں نے اس اعزاز کے ساتھ کیا کہ اقبال ایوارڈ جیسے قومی اعزاز کا مستحق ٹھہرا۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ایڈیٹوریم میں خصوصی تقریب منعقد ہوئی‘ جس میں اس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم نے مجھے کیش ایوارڈ اور سند فضلیت سے نوازا‘ بعدازاں کراچی یونیورسٹی سے اعزاز کے ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تو اُسی وقت میرا ارادہ بندھ گیا تھا کہ اب نوائے وقت سے ریٹائرمنٹ لے کر پوری توجہ تدریس پر دوں گا‘ اللہ کریم نے میری یہ نیت اور دُعا قبول کی اور آج میں سرخرو ہو کر خوشی ومسرت کے ساتھ نوائے وقت کی ملازمت سے سبکدوش ہورہا ہوں۔ اس ادارے میں مجھے بہت پیارے پیارے دوست ملے‘ جن کی محبتیں تا زندگی شمار کرتا رہوں گا‘ شیخ اکرام الحق میرے بزرگ ہیں ‘ ان سے زیادہ کوئی وضع دار انسان میں نے نہیں دیکھا‘ بشارت علی سید بلا کے محنتی اور انتھک ولائق صحافی ہیں‘ ان کی محبت دل میں لے کر جارہا ہوں۔ حاجی نوازرضا کو بے تکلفی کے باوجود ہمیشہ میں صاحبان خیر میں شمار کرتا رہا ہوں اور اب بھی انکی صحت وعافیت کا اللہ کے حضور طلب گار ہوں‘ جاوید صدیق اپنی طرح کے وضعدار انسان ہیں‘ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کیلئے دست تعاون دراز رکھتے ہیں‘ اللہ انہیں نیکی دے آمین‘ عزیزم ریاض اختر میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں‘ میں نے ان سے زیادہ طابع فرمان‘ بااعتماد اور نیک دل انسان کم کم دیکھا ہے۔ فراخ دلی اور کشادہ طبعی انکے اوصاف ہیں‘ وہ ہمیشہ میرے دل میں رہیں گے‘ نیوز روم کے کارکن رفیق مسیح کے ساتھ میرا مذاق اور گپ شپ رہی لیکن اسکے عقب میں دیکھنے والوں کیلئے اخلاص بھی موجود رہا۔عترت جعفری‘ قاضی بلال‘ سلیم تھہیم‘ پروفیسر ضمیر‘ ملک نعمان‘ افتخار شکیل‘ یاسرحسین‘ طفیل علی‘ وقار فانی‘ خورشید ربانی اور کمپیوٹرسیکشن کے قمرالاسلام‘ علی احمد‘ ارسلان‘ شاہد محمود اور حاجی شیراز بھائی سب میرے اپنے ہیں‘ ان کو دعائیں دیتا رہوں گا‘ عبدالباسط مرزا میرا شاگرد اور لگایا ہوا پودا ہے‘ اُسکے روشن مستقبل کیلئے میرے دست دُعا ہمیشہ دراز رہیں گے۔ چند مرحومین کو یاد کرنا بھی اس وقت میرا فرض ہے، ان میں احمد کمال، اصغر شاد اور اسلم چوہان بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ اللہ ان کا اگلا جہان اچھا کرے (آمین)

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ای پیپر دی نیشن