نہال ہاشمی کو توہین عدالت پر پھر نوٹس ، وکا لت کا لائسنس بھی معطل

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان نے مسلم لیگ ن کے سابق سنیٹر نہال ہاشمی کے ججز کے خلاف توہین آمیز بیان پر ایک اور توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ۔عدالت نے نہال ہاشمی کی معافی کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کی وکالت کا لائسنس بھی معطل کردیا ۔عدالت نے سندھ ہائی کورٹ بارسمیت صوبائی بارز ، پاکستان بار کونسل ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 12مارچ تک ملتوی کردی ۔کورٹ روم نمبر ایک میں دوران سماعت نہال ہاشمی کے جیل سے رہائی کے بعد دیئے گئے توہین آمیز بیان کو ملٹی میڈیا پر چلایا گیا چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد غصہ کرنا چھوڑ دیا تھا مگر اب بات بہت آگے بڑھ گئی ہے آئینی ادارے کے معزز ججز کی توہین کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی بار اور بنچ کا گہرا تعلق ہے اب ان کا موقف بھی سامنے آنا چاہئے ، نہاں ہاشمی کے وکیل اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ نے وکالت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس شخص کی وکالت نہیں کرسکتے جو ججز اور عدلیہ کو گالیاں دے۔دوران سماعت توہین عدالت کے مرتکب نہال ہاشمی نے متضاد موقف اختیار کیئے پہلے کہا میں نے کوئی توہین آمیز بیان نہیں دیا، پھر کہا میں نے جیل کے قیدیوں کی بات دہرائی ہے، پھر کہا میں ذہنی مریض ہوں کبھی کبھی ہائپر ہوجاتا عدالت رحم کا مظاہرہ کرے اور میری وکالت کا لائسنس منسوخ نہ کرے یہ میری روزی روٹی کا ذریعہ ہے مڈل کلاس آدمی ہوںبھوکوں مرجائوں گا جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ کا بیان دوبارہ سناتے ہیں آپ ہائپر صرف ججز کے معاملے پر ہوتے ہیں ؟جن کے حق میں بیان دیا گالیاں دیںوہ آپ کی مالی مشکلات کا خیال رکھیں گے کوئی بندوبست کردیں گے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجاز احسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی تو نہال ہاشمی عدالتی روسٹرم پر پیش ہوئے نہال ہاشمی کی جیل سے رہائی کی تقریر عدالت میں ملٹی میڈیا پر چلائی گئی، نہال ہاشمی نے تقریر دیکھی ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ دوسرا وقعہ کس طرح ہوا کیوں کوتاہی ہوئی آپ وکالت کے کالے کوٹ میں ہیں مگر یہ آپ کو اچھا نہیں لگ رہا آپ کی وکالت کا لائسنس معطل کریں گے ۔نہال ہاشمی نے کہا کہ میں جیل سے آرہا تھا ٹریفک نظام جام تھا کچھ وکلاء بھی ساتھ تھے جیل میں جو قیدی کھتے تھے میں نے وہ باتیں دہرائیں ۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ میرے بچے بھوکے مر جائیں گے، وکالت میری روزی روٹی کا ذریعہ ہے بھوکوں مرجائوں گا بچوں کے سکولوں کی فیس اور بجلی کے بل بھی ادا نہیں کرسکتا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پہلے سوچنا چاہیے تھا۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ میں مڈل کلاس آدمی ہوں،ایک چونی بھی میرے پاس نہیں ہے، میں دکھ اور پریشانی میں ہائپر ہوجاتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ ہم ججز کو دیکھ کر ہائپر ہوجاتے ہیں، اس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ قیدی مجھ سے زیادہ حکومت اور نظام کو برا بھلا کہتے تھے، میںشدید زہنی دبائو کا شکار تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اپنی تقریری میں کہا کہ ان بے غیر ت کے بچوں کو چاہئے لوگوں کے مقدمات سنیں یہ صرف سیاسی کیس سن رہے ہیں ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ نے وطیرہ ہی بنا لیا ہے۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ رہائی کے وقت ذہنی طور پر ٹھیک نہیں تھا، میں معافی مانگتا ہوں میں نے کسی شخص اور ادارے کے خلاف باتیں نہیں کی ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے توہین عدالت میں آپ نے کہا تھا کہ میں روزے سے ہوں اب کہہ رہے ہیں ہائپر ہوگیا تھا ۔ نہال ہاشمی نے کہا کہ عدالت لائسنس معطل نہ کرے اور توہین عدالت کا نوٹس جاری نہ کرے اور رحم کا مظاہرہ کرے میں معافی مانگتا ہوں ۔ جسٹس اعجاز احسن نے کہا کہ زبانی آرڈر نہیں کرسکتے کچھ تو لکھنا پڑے گا ۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تقریریں تو بڑی اچھی کرتے رہے، نہال ہاشمی نے کہا کہ میں آپ کا وکیل ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا وہ وکیل نہیں جو گالیاں دے، نہال ہاشمی نے کہا کہ جو الفاظ چلائے گئے وہ میرے نہیں تھے، آئندہ ایسے نہیں کروں گا۔ عدالت نے توہین عدالت ایکٹ 2000 کے سیکشن 17 کے تحت نہال ہاشمی کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے تحریری جواب طلب کرلیا گیا ہے جبکہ بارز رولز k کے تحت نہال ہاشمی کا وکالت کا لائسنس معطل کردیا گیا ،ایک موقع پر نہال ہاشمی نے کہا کہ میں ایکٹنگ کررہا تھا جس پر فاضل جج نے کہا کہ کیا آپ ایکٹر ہیں؟

ای پیپر دی نیشن