جب آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن مجید فرقان حمید کانزول ہواتو وہ دور دنیا عرب کی جہالت اور ذہنی پسماندگی کا دور تھا۔ قبائلی رسم و رواج میں جکڑا ہوا ایک ایسا معاشرہ تھا جہاں عورت کو دیگر پالتو جانداروں کی طرح اپنی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ کچھ قبائل تو بچیوں کی پیدائش کے فوراً بعد زندہ دفن کردیتے تھے۔ اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ دین ہے، جو لوگوں کے معاملات کوعبادت کی طرح اہم سمجھتا تھا۔ اسلام ایک ترقی پسندانہ سوچ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے نہ صرف عورت کو مرد کے برابر حقوق اور حیثیت دی بلکہ عورت کو وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ زندگی کے کچھ امورمیں تو عورت کو مرد سے زیادہ فوقیت حاصل ہے۔ عورت کواس کی مرضی سے شادی کا حق دیا۔ عورت کو خلع کا حق بھی دیا۔ تجارت، جنگی مہمات میں شمولیت، غرضیکہ اس دور میں جو حق اور جو کام مرد کرتے تھے اس کی اجازت شرعاً و قانوناً عورت کو بھی حاصل تھی۔ اسلام نے عورت کوعزت، مقام، مرتبہ دیا اور واجب الاحترام جانا۔ لیکن یہ افسوس ناک بات تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر خلفائے راشدین کے بعد اسلام میں ملوکیت در آئی۔ شہنشائی انداز حکومت کی خلافت میں عورت پھر مظلومبن گئی اور یہ جنس پھر مردوں کی ملکیت قرار پائی۔ وہی اسلام جو ایک انقلابی مذہب بن کر دنیا بھر میں پھیل رہا تھا اس کے ماننے والوں نے اس روشن مذہب کو دُھندلا دیا اور اسکی اصل روح سے جدا کر دیا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی اسلامی دنیا کی عورتوں کو وہ مقام اوررتبہ میسر نہیں جس کا حقدار انہیں اسلام نے ٹھہرایا تھا۔ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ جن معاشروں نے اسلام قبول کیا وہ عورتوں کی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد سے ناآشنا ہیں اس تاثر کی جڑ اس غلط فہمی میں پنہاں ہے کہ عہد حاضر کی خواتین کی جدوجہد محض یورپی اور امریکی نظریات رکھنے والے علاقوں اور معاشروں میں انیسویں صدی اور پھر بیسویں صدی میں ہونے والی خواتین کی جدوجہد پر مبنی ہے۔ اس تاثر کو مسلم تناظر اور اس سے قطع نظر دونوں جگہوں پر صحیح سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں تو یہ تاثر اس لیے پھیلایا جاتا ہے کہ خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والوں اور انکے نصب العین کو مشکوک بنایا جائے۔ اگر اس تاثر کو درست سمجھ لیا جائے تو پھر یہ بسااوقات حقوق کے حوالہ سے مباحثہ سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے۔ خواتین کی جانب سے اپنے حقوق اور انصاف کی ہر صدا کی راہ روک دیتا ہے۔ اسکے برعکس سچ تو یہ ہے کہ عورتوں نے ہر زمانہ اور ہر خطے میں اپنے حقوق کے حصول کیلئے آواز بلند کی ہے اور ایک آئیڈیل، منصفانہ معاشرے کی تشکیل کیلئے جدوجہد کی ہے۔ اپنے معاشی حقوق اور معاشرتی حقوق کیلئے آواز اٹھانے والی خواتین کا تعلق آٹھویں صدی سے اکیس ویں صدی تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ مسلم ممالک کی خواتین نے انسانی حقوق کی پامالی کرنیوالے معاشروں، ملکوں کے خلاف جدوجہد کی ہے اور آج بھی بہت سے ممالک میں یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ ’’لیبیا میں انسانی حقوق کی علمبردار چالیس سالہ ’’رم‘‘ کا کہنا ہے ’’ہم نے ایک طاقت ور شخص کے خلاف جدوجہد اس لیے نہیں کی تھی کہ ہم خواتین ایک ظالمانہ نظام کے تحت زندگی گزاریں۔‘‘ اسکی وجہ یہ ہے کہ لیبیا میں ایک سے زیادہ شادیاں کرنے پرپابندی تھی، اسکے بارے میں موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ ’’شادی اور طلاق کا یہ قانون شریعت سے متصادم ہے اسلیے اسے ختم کر دیا گیا ہے۔ لیبیا میں تمام قوانین کی بنیاد اسلامی شرعی قوانین کو بنانے کا اعلان کیا گیا جس نے خواتین میں بہت سے تحفظات کوجنم دیا۔‘‘ تیونس میںترقی پسندوں ا ور اسلامی جماعتوں نے مل کر جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہدکی۔ عرب ممالک میں اٹھنے والی مظاہروں کے ’’سونامی‘‘ میں اگرچہ ہر طرح کی سوچ رکھنے والے افراد اور سول سوسائٹی کے لوگوں نے حصہ لیا۔ مگر اب ان ممالک میں خواہ وہ لیبیا ہو یا تیونس، مصر ہو یا عراق انتہا پسند اسلامی گروپ زیادہ طاقتور ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے انسانی حقوق اور خصوصاً خواتین کے حقوق کیلئے ایک طرح سے جنگ شروع ہو گئی ہے۔ عرب ممالک میں عورتوں میں اجتماعی بیداری پیدا ہوئی ہے۔ اب وہ پرجوش طریقے اور باہم اپنے اسلامی حقوق کو حاصل کرنے کیلئے برسرپیکار نظر آ رہی ہیں۔ سعودی عرب میں انتخابات میں حصہ لینا ہو یا پھر ڈرائیونگ کا مسئلہ ہو۔ عراق میں کم سنی کی شادی یا پھر بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی ہو۔قاہرہ، تیونس اور یمن میں بھی کچھ ایسے مناظر ہیں جہاں تبدیلی کی ہر لہر میں نئی توانائی اور قوت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ’’پاکستان عورت بھی اپنے دین سے بے پناہ محبت کے باوجود عورت پر ظلم، تشدد اور استحصالی معاشرہ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں جہاں عورت کا استحصال ہو رہا ہو۔‘‘ خصوصاً ضیاء الحق کے سیاہ دور میں خواتین کیلئے بہت بھیانک قوانین بنائے گئے اور انہیں سماجی، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ یہ امر سراسر غلط ، قائد اعظم کی سوچ اور فکر سے متصادم اور اسلامی اور آئینی لحاظ طورسے بھی غلط تھا۔ اس دور میں چند این ۔ جی ۔ اوز اورکثیر تعداد میں ان خواتین نے جو یہ جانتی تھیں کہ اسلام نے کبھی مرد اور عورت کے درمیان فرق روا نہیں رکھا، یہ محض جاگیردارانہ اور قبائلی معاشرے کا شاخسانہ ہے جو خواتین کو انکے حقوق سے محروم کرنے کیلئے مذہب کواستعمال کر رہا ہے۔ یہ خواتین ہم آواز ہو گئیںاور ’’ویمن ایکشن فورم‘‘ پر اکٹھی ہوئیں یہ بلندہمت خواتین تمام امتیازی قوانین سے منکر تھیں۔ ان خواتین کی کردار کشی کی گئی کہ یہ خاندانی نظام کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور یہ مذہب کے بارے میں لاعلم ہیں مگر ثابت ہو گیا کہ یہ تاثر غلط تھا۔