پرتھوی راج چوہان کے بعد اثر چوہان کا نام سنا تھا۔ تحریک انصاف حکومت میں آئی تو مرکز اور پنجاب میں چودھری اور چوہان کو اپنا چہرہ بنایا۔ فیاض الحسن چوہان وزارت میں آنے سے قبل بھی زیادہ غیرمعروف نہیں تھے، ٹی وی ٹاکروں میں سیاسی حریفوں سے دلائل کے ٹوکروں کیساتھ ایسا ٹکراتے کی کبھی ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر نہیں بنے تھے ۔ مرکز میں فواد چودھری اور پنجاب میں چوہان نے پارٹی نقطہ نظر سے عمران کے اعتماد کرنے کا حق ادا کر دیا۔ اپوزیشن کے عقابوں کو جواب دینا تحریک انصاف کے کسی ’’فاختائی صفت‘‘ رہنماکے بس کی بات نہیں۔ چودھری اور چوہان اپنے طرز سخن اور پلٹ کر جھپٹنے کے انداز کے باعث اپوزیشن اوراسکے حامیوں کیلئے ناقابل برداشت حد تک ناپسندیدہ تھے۔یہ مردانِ بیباک پارٹی کے حاسدین کے دل میں بھی کانٹے کی چُبھتے ہیں۔ان کو موقع ملا تو چوہان کا چورن بکوا دیا فواد چودھری نشانے پر ہیں۔
فیاض چوہان سے ہندو قومیت کے بارے نامناسب گفتگو کرنے پر استعفیٰ لیا گیا۔ گائے کا …پینے والے ہمارا کیا مقابلہ کرینگے۔ ان کا روئے سخن یقیناً پوری ہندو قومیت کی طرف نہیں، مودی اور اس جیسے پاکستان کے بدترین دشمن شدت پسند ہندو تھے، چوہان نے اپنے بیان پر معذرت بھی کی مگر انکے استعفے سے کم لیڈر شپ کی تسلی نہ ہو سکی۔ نوجوان وزیر کو نرگس کیخلاف بیان اور صحافیوں سے پنگا بازی کے بعد محتاط رہنے کی ضرورت تھی۔ ان کوجذباتی پن لے ڈوباکسی بھی قومیت کیخلاف کسی بھی تناظر میں تضحیک کا کوئی جوازہوہی نہیں سکتا۔اب پچھتائے کیا ہوت۔ مگر یہ انکی سیاست کا اختتام نہیں وہ مایوس ہو کر گھر نہ بیٹھیں ایسا کرینگے تو اپوزیشن کے حریف اور اپنی پارٹی کے شریک شادیانے بجائینگے۔ اپنی ٹون اور ٹیمپو برقرار رکھیں۔ حکومت اور پارٹی کوایسے وفاداروںکی ضرورت ہے، وہ میڈیا محاذ سنبھالیں، ٹاک شوز میں حصہ لیں، اخبارات کو انٹرویو دیں ، مضامین لکھیں۔ ان کوکھویا عہدہ اور مقام اسی صورت ملنے کا زیادہ امکان ہے۔انکی جگہ صمصام بخاری آئے ہیں،صمصام کیلئے خود کواپنے پیشروسے زیادہ فعال ثابت کرنا ہوگا،پرویز رشید کی جگہ مرکز میں مریم اوررنگ زیب کو لایاگیا تو ن لیگ کو پرویز رشید کی یاد آئی نہ اس وقت کی اپوزیشن کوقرار آیا۔ اس تحریر کا آغاز پرتھوی راج چوہان کے ذکر سے کیا۔ پرتھوی کو محمد غوری نے شکست دی اور اسے میدانِ جنگ میں مار گرایا تھا مگر بنیا ذہنیت محمد غوری کے مقابلے میں پرتھوی کو فاتح مانتی اور ہیرو قرار دیتی ہے۔ کیبل پر ڈرامے دیکھنے والے بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ناہنجار بنیا فلموں اور چینلز کے ذریعے جھوٹ کو سچ دکھاتااورتاریخ بدل رہا ہے۔ پاکستان میں دونوں خرافات جو بھی لایا اُس کا منہ کالا،جو ان خرافات کودیس نکالا دے رہے ہیں، انکے نام کا بول بالا۔ کل ایک نوجوان کہہ رہا تھا ہم نے ہندوستان کے دو جہاز مار گرائے وہ صرف ہمارا ایک ہی ایف سولہ گراسکا۔ ’’ہَر دُولعنت، یہ تمہیں کس نے کہا۔‘‘ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا۔’’ ڈش پر انڈین چینل پرسنا‘‘۔بھارتی نیوز چینل دیکھنے کیلئے انکی مکاری و عیاری سے آگاہی ضروری ورنہ گمراہی…۔
پرتھوی کی طرح بنیا مائنڈ سیٹ ابھی نندن کو بھی ہیرو قرار دیتا ہے۔ ابھی نندن کی گرفتاری پر پاکستان کشمیر اور بھارت کے اندر کئی مسلمان بھی شادباغ ہو گئے۔ پاکستان کے اندر بھی کچھ لوگوں کے پیٹ میں بھارت کی دُرگت پر مروڑ اُٹھے مگر مجبور محض تھے، مودی اور بھارتی میڈیا جیسے جذبات رکھتے ہیںمگر اظہار ناممکن کہ محب وطن پاکستانی ایسے لوگوں کو جوتے مارتے ہیں تو گنتے نہیں۔ نمک حرام بہرحال ہر جگہ ہوتے ہیں۔ ان میں ایک عدنان سمیع بھی ہے جو پیدا ہوا اور پلا بڑھا پاکستان میں‘ مگر بھارت جا بسا۔ اب پاکستان کیخلاف زہراُگل رہا ہے۔ اسکے ابا حضور ارشد سمیع خاں پائلٹ تھے۔ 65ء میں بہادری سے جنگ لڑی۔ ایوب کے بعد وہ یحییٰ اور بھٹو کے اے ڈی سی رہے۔ کتاب لکھی‘
Three presidents and an Aide
بھٹو 1972ء میں ان کو ریٹائرمنٹ پر 22 گریڈکی سول سروس میں لے آئے۔ اس سے زیادہ پاکستان کی طرف سے کسی شہری کو کیا عزت‘ شہرت اور ثروت دی جا سکتی ہے! اس مردِخانہ خراب نے لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کی طرح اپنی کتاب بھارت میں شائع کرائی۔ روح قفس عنصری سے پرواز ہوئی تو بھی بھارت میں تھے۔ اہل خانہ کو شاید چتاجلانے کا شک گزرا تو میت پاکستان لے آئے۔عدنان اپنے باپ سے کہیں بڑھ کر بھارت نواز ہے۔اس نامعقول نے ہو سکتا ہے ن م راشد اور عصمت چغتائی کی طرح اپنی چتاجلانے کی وصیت کر دی ہو۔لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کو بھی پاکستان نے عزت و ثروت کی انتہا تک پہنچایا۔ وہ ڈی جی آئی ایس آئی رہے۔’’دا سپائی کرانیکلز‘‘ کتاب سابق بھارتی انٹیلی جنس چیف ایس کے دُلت کے ساتھ مل کر لکھی اور وہیں شائع کرائی،جس میں پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کی گئی۔ اپنا حلف پہلے ہی محض بینظیر بھٹو کو خوش کرنے کیلئے توڑ چکے تھے۔ آئی جے آئی کی تشکیل میں فوج کے کردار کو راز نہ رکھ سکے۔ کیا بینظیر بھٹو نے ان کو فیلڈ مارشل بنا دینا تھا؟اُس وقت کوئی ایکشن نہ ہوا تو مزید حوصلہ پا کر دشمن ملک میں راز افشا کرنے لگے جس پر کورٹ مارشل ہوا۔ اب پنشن اور مراعات بند ہو چکی ہیں۔ ابھی ایسے ہی ایک اور کردار جنرل محمود درانی کی ایسی ہی ادائوں پر گوشمالی درکارہے۔ محمود درانی جھوٹوں کی نانی نے 2009ء میں بھارت میں کھڑے ہوکراجمل قصاب کو پاکستانی قرار دیا اور اب کچھ عرصہ قبل کہا ممبئی حملوں کے دہشتگرد پاکستان سے آئے تھے۔ ایسے سول اور فوج میں جو بھی بد کردار ہیں‘ انہیں بارڈر پار کرادینا چاہیے۔