قومیںرہنما پیدا کرتی ہیں اور پھر وہی رہنما قوم کو یکجا کر کے اپنی منزل کا تعین کرتے ہیںاور تا حاصل منزل سکھ کا سانس نہیں لیتے اور پھر وقت آجاتا ہے جب وہ سرخرو ہو کر اپنی نسلوں اور دیگر اقوام کے لئے مشعل راہ بن جاتے ہیں چاہے، وہ سوشلزم کے چینی انقلاب کو لیڈ کرنے والے مائوزے تنگ ہوں یا پھر کالے رنگ کے نسلی تعصب کے خلاف جنگ جیتنے والے نیلسن منڈیلا ہوں اور یا پھر انگریز ہندو مشترکہ سامراج سے برصغیر کے مسلمانوںکے لئے دنیا کی پہلی مذہب کی بنیاد پر آزادی حاصل کرنے والے ہمارے عظیم رہنما قائد اعظم محمد علی جناح ہوں، ان سب رہنمائوں میںایک قدر یا خوبی مشترک تھی۔ وہ یہ کہ وہ اپنی قوموں کے مستقبل کے حوالے سے دور اندیش اور درست فکر رکھتے تھے اور وقت نے یہ ثابت کیا کہ ان کے فیصلے،اقدامات اور تحریکیںوقت کی ضرورت اور حق سچ پر تھیں۔ حالیہ دنوں میں جب آج بھارت کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوںکو زندہ درگور کیا جارہا ہے اور ان کے بنیادی حقوق کی پامالی میںہندوتوا کے نظریات کی حامی بنیاد پرست حکمران جماعت بی جے پی فاشسٹ پالیسی پر عمل پیرا ہو کر 22 کروڑ مسلمانوں پر زمین تنگ کر رہی تو قائد کا وہ حکمت بھرا اور دور اندیشی سے بھر پور قول یاد آگیا کہ بھارت میں رہ جانے والے اور آزادی کی تحریک میں پاکستان کے خلاف چلنے والے مسلمان مستقبل میں بھارت کو اپنی وفاداری کے ثبوت دے کر ثابت کریں گے کہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں لیکن تب صورتحال بدل چکی ہو گی اور آج کا بھارتی مسلمان جن کے آبائو اجداد نے اس وقت بھارت کو ترجیح دی خاص طور پر وہ مسلمان خاندان جو سیاسی اور تحریکی محاذوں پر ہندوئوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور حکومتی ایوانوں کے مزے لوٹتے رہے آج سیکولر کاغذی پردے کے پیچھے چھپے اکھنڈ بھارت کا مکروہ چہرہ آشکار ہونے پر بول اٹھے کہ ہمارا اور ہمارے آبائواجداد کافیصلہ غلط تھا اور قائد اعظم درست تھے اور یہی ایک لیڈر کی زیرک نگاہی اور دور اندیشی ہوتی ہے کہ بھٹکے ہوئوں کو ادراک خودی ہو جائے لیکن یہاںماضی کا ذکر اپنے مسلمان بھائیوں کا دل دکھانا یہ زخموں پر نمک چھڑکنا ہر گز نہیں بلکہ مہا بھارت کی داغ بیل ڈالنے والے والے مودی اور ہمنوا کے مکروں چہروں اور نا پاک عزائم کہ قلعی کھولنا ہے۔ آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والا نریندر مودی بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے کے بعدگجرات کا وزیر اعلیٰ بنا تو اپنی انتخابی مہم کے دوران ووٹ بینک حاصل کرنے کے لئے ہندو کارڈ استعمال کیا جس کے تحت ہندوئوں کو مسلمانوں کے خلاف شر انگیز اور نفرت انگیز تقاریر کر کے انکی ہمدردی حاصل کرنا تھا اور پھر ایسا ہی ہوا جب گجرات کے ہندو مسلمانوں کواپنا دشمن سمجھنے لگے اور یہ نفرت بڑھتی بڑھتی مسلم کش فسادات میں بدل گئی اور سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا جبکہ ہزاروں مسلمانوں کے گھروں پر بلو ائیوں نے دھاوا بولتے ہوئے نذر آتش کرتے ہوئے بے گھر کر دیا اور اس وقت حکومتی سر پرستی میں یہ سب قتل و غارت کا بازار گرم ہو ا جبکہ پولیس اس دوران بلوائیوں کو تحفظ فراہم کرتی رہی۔ 2002 ء میں جب اس ظلم بر بریت کی کہانی اقوام عالم میں پھیلی تو بھارت نے اپنے ہا تھوں اور چہرے پر لگے خونی داغوں کو مٹانے کے لئے فرضی کارروائیاں شروع کرتے ہوئے اس غارت گری کے سرغنہ مودی کو بیچ کٹہرے لا کھڑا کیا پھر کیا تھا عدالت اپنی تھی،ملک اپنا تھا،لوگ اپنے تھے ،قانون اپنا تھا بس غیر تھا تو مظلوم مسلمان اور پھر اس مسلم کشی کے اس سنگین مجرم کے کیس کو داخل دفتر کرتے ہوئے نہ صرف ایک قسم کا با عزت بری کر دیا گیا بلکہ بھارت کے اندر چلنے والے ہندو ڈاکٹرائن اور مہا بھارت کے کرتا دھرتوں نے اس ہٹلر نما سیاستدان کو مرکز میں لانے کا فیصلہ کر ڈالا اور بی جے پی کا مضبوط امیدوار ہونے کی بنا پر مرکزی اقتدار پر تخت نشیں ہوتے ہی اس فاشسٹ مودی نے اپنے اطوار جابرانہ اور خواہش ظالمانہ کو جاری رکھا اور بھارتی صوبہ گجرات کے سفاکانہ و اقعات کی دوسری قسط چلائی فرق صرف اتنا تھا کہ 2002 تھا اب2020 ہے اس وقت مودی وزیر اعلیٰ تھا اب وزیر اعظم اس وقت گجرات صوبہ تھا اب بھارت کادارالحکومت ہے اس وقت نریندر مودی براہ راست شامل تھا۔ اس بار اس کے پیادے شامل ہیں، اس وقت انتہا پسند ہندوئوں کے محافظ گجرات پولیس تھی اور اس وقت دہلی پولیس ہے دیکھا جائے تو ان حالا ت و اقعات کی چھتر چھایا اور خمیر ایک ہی ہے۔نریندر مودی نے وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے گریٹ ہندو توا کے مذموم عزائم کو پایا تکمیل تک پہنچانے کے لئے آہستہ آہستہ مسلم دشمن پالیسیاں اپناتے ہوئے انہیں آئینی شکل دینی شروع کردی جس کی پہلی کڑی مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو یکطرفہ تبدیل کرنا تھا جب اس قدم سے اس کی ہمت بندھی تو اس نے بھارتی شہریت بل میں تبدیلی کر ڈالی جو کہ بھارتی سیکولرازم کے آئین پر یکے بعد دیگرے طمانچوں کی بھرمار سے کم نہیں تھا۔