گروار جن دیو جی کی یادگاریں اور شہر لاہور

Mar 08, 2020

ظفر علی راجا

گذشتہ دو سالوں سے بیرونی ممالک اور ہندوستان سے بہت سے سکھ حضرات پاکستان میں آ رہے ہیں۔ جب سے کرتارپور کا افتتاح ہوا ہے دنیا بھر کے سکھوں نے پاکستان کے سفر کو ترجیح دینا شروع کر دی ہے۔ حکومت پاکستان اور عمران خان کے وزراء ان کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور سکھوں کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ سکھوں نے سکھ کلچر اور اپنے رہنماؤں پر بہت سی کتب تحریر کی ہیں۔ ایک پاکستانی مصنف سید فیضان عباس نے لاہور میں سکھوں کی بنائی ہوئی عمارات پر ایک کتاب شائع کی ہے۔ جس کا نام ’’گرو ارجن دیو جی کی یادگاریں‘‘ ہے۔ گرو ارجن سنگھ سکھ مذہب کے پانچویں گرو تھے۔ سید فیضان عباس نے گرو ارجن سنگھ کے زندگی نامے کو بھی تحریر کیا ہے اور لاہور میں ان کی بنائی ہوئی عمارات دیوان خانہ گرو ارجن دیو جی، گردوارہ مکان باولی صاحب، گردوارہ بھائی بدھو کا آوا، گردوارہ لال کھوہ موچی گیٹ، گردوارہ ڈیرا صاحب، گروار جن نگر کے بارے میں مضامین شامل اشاعت کئے ہیں۔ سید فیضاں عباس نے اپنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل اس ملک میں30 عظیم الشان گردوارے تھے۔ برصغیر جب تقسیم ہوا تو سکھوں کے زیادہ مذہبی مقامات اور گردوارے پاکستان میں آ گئے۔ ان میں لاہور میں سکھ مذہب کے پانچویں گرو ارجن دیو جی سے منسوب بھی کچھ مقامات شامل ہیں۔ مجھے لاہور کے پرانے اور قدیم مقامات پر جانے کا بچپن سے شوق تھا۔ قدیم مقامات میں ایسی کشش تھی کہ میں نے ہمیشہ خود کو ان کا اسیر پایا۔ اس شوق کو تسکین دینے کے نتیجے میں کھوج کا شوق پڑ گیا۔ اس کھوج کا ایسا چسکا پڑا کہ اسی کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ اسی وجہ سے آج سارے پاکستانی مجھے لاہور کے کھوجی کی حیثیت سے جانتے اور مانتے ہیں۔ اب آتے ہیں سری گرو ارجن دیو جی کی زندگی کے احوال کی طرف، ان کا زندگی نامہ بہت طویل ہے لیکن مختصراً اس انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ آپ کی پیدائش پندرہ اپریل 1563ء کو موضع گوہند وال میں ہوئی تھی۔ گرو رام داس جی کے تین بیٹے تھے۔ اپنی خواہش کی تکیمل کے لئے اپنی زندگی ہی میں سب سے چھوٹے بیٹے کو ہونہار جانتے ہوئے ارجن دیو جی کو اپنا جانشین قرار دے دیا۔ رام داس 3 کی وفات کے بعد ارجن دیو جی 1581ء کو گرو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے سکھ فرقے کو بہت ترقی دی اور جا بجا تالاب، باؤلیاں، دھرم شالائیں تعمیر کروائیں۔ مذہبی قاعدے اور قانون بنا کر ہزاروں ہندوؤں کو توحید کا درس دیا اور اپنے اعتقاد پر ایسا پابند کیا کہ لوگ گرو نانک کی طرح ان کو بھی اوتار ماننے لگے۔ لاہور میں ایک تاریخی بیسا کھی کے دن انہوں نے سب پیروں فقیروں کو دعوت دی اور تالاب بنوانے کے لئے انہوں نے پہلی اینٹ حضرت میاں میر لاہوری سے رکھوائی۔ اس وقت ہندوستان میں نورالدین جہانگیر کی حکومت تھی۔ سکھوں کے مذہب میں کوئی کتاب نہ تھی لہٰذاسکھ مذہب کی پہلی کتاب گرو گرنتھ کو انہوں ہی نے تحریر کیا اور سکھ فرقے کو اپنی تالیف کو بطور مذہبی کتاب آشکار کیا۔ یہ کتاب آج تک سکھوں کے واسطے ایک مذہبی شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ گروجی نے امرتسر میں ایک پختہ تالاب بنوالا۔ جس کا سنگ بنیاد حضرت میاں میر کے ہاتھ سے رکھوایا۔ حضرت میاں میر لاہور سے امرتسر تشریف لے گئے اور اس مقدس تالاب کا سنگ بنیاد رکھا۔ جسے آج کل گولڈن ٹیمپل کہا جاتا ہے جو کہ سکھ مسلم دوستی کی زندہ مثال ہے۔ اس وقت چندد لال دیوان ناظم لاہور تھا۔ اس نے گروارجن دیو کو گائے کے چمڑے میں بند کر کے مارنا چاہا۔ اس پر گروارجن سنگھ نے چندو سے کہا کہ وہ دریائے راوی میں غسل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ اس درخواست پر گوروجی کو ملازموں کی نگرانی میں دریائے راوی بھیج دیا۔ وہاں وہ اشنان کرتے ہوئے راوی کی لہروں میں غوطہ لگایا اور پھر واپس نہ ابھرے۔ اس طرح 43 برس کی عمر میں گوروجی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ بعدازاں رنجیت سنگھ نے اپنے دور حکومت میں اس مقام پر ایک عظیم الشان گردوارہ تعمیر کر دیا۔ گرو ارجن سنگھ سکھ مذہب کے پہلے ’’شہید‘‘ ہیں جس کے بعد سکھوں میں قربانی دینے کا جذبہ پیدا ہو گیا۔اب آتے ہیں ان عمارات کی طرف جو گورو ارجن سنگھ نے لاہور شہر میں تعمیر کروائی تھیں۔ چونا منڈی لاہور میں انہوں نے گردوارہ دیوان خانہ بنوایا۔ 1927ء سے 1947ء تک اس کا انتظام شہروتی گردوارہ بندھک کمیٹی کے پاس تھا اب یہ محکمہ متروکہ وقف املاک کے پاس ہے۔ اس کے بعد گردارہ مکان باولی کا نمبر آتا ہے۔ یہ گردوارہ ڈبی بازار رنگ محل کے نزدیک اب تک موجود ہے۔ سکھ اس جگہ کو بہت مقدس مانتے تھے۔ اسی جگہ پر حضرت شاہ حسین، چھجو بھگت اور بہت سے درویش آئے اور معرفت الہٰی اور توحید کے بارے میں مذاکرات ہوئے۔
پھر انہوں نے رنگ محل چوک کے نزدیک ایک بڑا مکان بنوایا جس کا دروازہ عالیشان محرابی بنا ہوا ہے۔ تین دالان منقش بنے ہوئے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر ارجن سنگھ تے گردوارہ بھائی بدھوکا آوا بنوایا جو آج بھی قائم ہے۔ پھر انہوں نے گردوارہ لال کھوہ موچی گیٹ بھی بنوایا۔ جہاں وہ خود بھی مقیم رہے۔ یہاں حضرت میاں میر بھی ان سے ملاقات کے لئے آتے تھے۔ جب شہنشاہ جہانگیر کو ان کی وفات کی اطلاع ملی تو انہوں نے چندو کو گدھے پر سوار کر کے شہر ہی گھمایا۔ شہر لاہور کا ایک بڑبھونچا جس کا نام مولی اتاری تھا۔ اس نے جب چندو کو اس حال میں دیکھا تو اپنے چنے بھوننے والا کڑچھا اس طرح مار کر اس کا پیٹ پھٹ گیا۔ اور وہ سربازار مر گیا۔ اس کے بعد ایک بڑی عمارت جس میں گرو ارجن سنگھ کی علامتی سمادھی بنائی گئی ہے۔ بعدازاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اور بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرد کے درمیان ایک معاہدہ ہو گیا جس کے مطابق مخصوص تعداد میں سکھ اپنی مذہبی رسومات کے لئے پاکستان آ سکیں گے۔ اس معاہدے کے تحت سکھ آج تک مذہبی رسومات کے لئے پاکستان آ رہے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس کا افتتاح کر دیا ہے۔ جس سے سکھوں کے پاکستان آمد میں زبردست اضافہ ہو گیا ہے۔ ہم سید فیضان عباس کو ’’گرو ارجن سنگھ کی یادگاریں‘‘ لکھنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔
٭…٭…٭

مزیدخبریں