روزگار حیات کے لئے بلاخوف اُوبر چلاتی ہوں
ڈرائیونگ جیسے سخت پیشے سے وابستہ عروج صابر سے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر گفتگو
عنبرین فاطمہ
وجودِ زن سے تصویر کائنات میں رنگ تو ہے مگر یہ ایسا رنگ نہیں کہ جو صرف قوسِ قزح کی طرح آنکھوں کو خیرہ کرنے کا سبب بنے بلکہ وجودِ زن سے کائنات کی تصویر میں ایسا رنگ بھرا ہے کہ عورت نے معاشرے کی ہر اکائی میں اپنا کردار روزِ ازل سے ادا کیا ہے۔مردوں کے اس معاشرے میں کئی باہمت خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے اس سوچ کو غلط ثابت کیا ہے کہ خواتین مردوں سے کم ہیں۔ہم آج خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک ایسی خاتون سے ملاقات کررہے ہیں جنہوں نے محنت کو شعار بنایااور ڈرائیونگ کے پیشے کو اپنایا،دو سال سے اُوبر چلا رہی ہیں۔اُوبر ڈرائیور عروج صابر کہتی ہیں کہ ان کے گھر کے حالات اس قسم کے تھے کہ انہیں معاملات زندگی چلانے کیلئے اس سخت جان پیشے کو اپنانا پڑا ۔میرے شوہر کا ذریعہ معاش کوئی خاص نہیں ہے گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا اس لئے میں نے سوچا کہ کیوں نااپنے شوہر کا بازو بنوں اللہ کانام لیکر یہ کام شروع کر دیا۔عروج کہتی ہیں کہ میں اس دن کے موقع پر پوری دنیا کو پیغام دینا چاہتی ہوں کہ پاکستانی سوسائٹی عورتوں کو بہت عزت دیتی ہے اور محنت کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اپنی خواتین سے کہنا چاہتی ہوں کہ کوئی بھی ایسا کام نہیں ہے جو عورتیں نہ کر سکیں جو بھی کرنا چاہتی ہیں کریں اور بالکل نہ یہ سوچیں کہ سوسائٹی کیا کہے گی ہماری سوسائٹی بہت کھلے دل کی ہے جو خواتین آگے بڑھ کر ملکی ترقی میں حصہ ڈالنا اور خاندان کی کفالت کا بیڑا اٹھانے کے لئے محنت کرنا چاہتی ہیں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے۔اُوبر چلانے کا خیال کیسے آیا اس سوال کے جواب میں عروج صابر نے کہا کہ میری ایک کزن جو کہ میرے بہت ہی قریب ہیں وہ میرے سارے حالات جانتی ہے اس نے مجھے کہا کہ عروج تم طرح طرح کے چھوٹے موٹے کام جو کرتی پھر رہی ہو تمہیں چاہیے کہ تم اپنی گاڑی کو اُوبر پر لگا دو اس کا آئیڈیا مجھے اچھا لگا میں نے اپنی گاڑی اُوبر پر لگا دی اور کام کرنا شروع کر دیا ۔جب میںخود ڈرائیونگ سیکھ رہی تھی تو مجھے یہ کام مشکل لگا درمیان میںایسا بھی لگا کہ شاید میں یہ کام نہیں سیکھ سکوں گی لیکن میںنے یہ کام سیکھ لیا اور کافی عرصہ تک لڑکیوں کو ڈرائیونگ سکھاتی رہی پھر سکول کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ بھی دیتی رہی ،بیوٹی پارلز میں میک اپ کی ڈیلیوری بھی کرتی رہی ۔پولیو اور ڈینگی کی ٹیموں کا حصہ بھی رہی ہوںیہ سب کام کر تو رہی تھی لیکن گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے تھے جب گاڑی اُوبر پر لگا لی تو پھر میں نے خود ڈرائیونگ شروع کی ،بہت ہی سخت اور مشکل کام ہے لیکن کیا کیا جائے اب معاملات زندگی بھی تو چلانے ہی تھے۔میں نے جب یہ کام شروع کیا تو مجھے ڈر تھا کہ میرے خاندان والے میرا جینا حرام کر دیں گے سوسائٹی باتیں کرے گی لیکن میں حیران رہ گئی کہ خاندان اور خاندان سے باہر کے لوگوں نے مجھے سپورٹ کیا میرے شوہر نے بھی مجھے بہت سپورٹ کیا اس چیز نے میرے حوصلے مزید بلند کئے۔میرا تجربہ یہی کہتا ہے کہ اگر حوصلہ افزائی ہو تو عورت مشکل کے کسی پہاڑ سے بھی ٹکرا جاتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں عروج صابر نے کہا کہ جب سے ڈرائیونگ شروع کی ہے تب سے کوئی ایسا قابل ذکر ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا لیکن کبھی کبھی ایسی سواریاں ضرور بیٹھ جاتی ہیں جو مذاق اڑاتی ہیں کبھی گاڑی کی حالت پر باتیں کرتی ہیں لیکن مجھے ایسی باتوں سے فرق نہیں پڑتا ۔عروج صابرکہتی ہیں کہ وہ کرائے کے گھر پر رہتی ہیں خواہش کہ اپنا گھر ہو اسکے لئے انہیں جتنی بھی محنت کرنا پڑی وہ کریں گی ۔کہتی ہیں کہ میں نے پچیس گھنٹے بھی مسلسل گاڑی چلائی ہے سخت دھند بھی گاڑی چلائی اتنی دھند ہوتی تھی کہ کچھ نظر بھی نہیں آتا تھا اس دوران جو سواریاں ملتی تھیں وہ کہا کرتی تھیں کہ اتنی دھند میں گاڑی چلانا خطرناک ہے لیکن میں اللہ کے سہارے گاڑی چلاتی رہی۔ میرے خاندان میں مجھ سے پہلے کوئی خاتون اُوبر نہیں چلاتی تھی میں دو تین مرد حضرات کو جانتی ہوں جنہوں نے اُوبر پر گاڑی چلانی شروع کی لیکن جلد ہی یہ کہہ کر چھوڑ دی کہ یہ تو بہت محنت طلب کام ہے اور پیسہ بھی کم ہے تو میں تو یہی کہتی ہوں کہ جتنے گھنٹے آپ گاڑی چلاتے ہیں آپ کو اس کے حساب سے ہی کمائی ہو گی۔عروج کہتی ہیں کہ ڈرائیونگ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ،دو سال پہلے جب میں نے کام شروع کیا تب کورونا نہیں تھا حالات کافی بہتر تھے اچھا کما لیتی تھی لیکن جب کورونا آیا اس کے بعد کمائی زرا کم ہو گئی اور اب تو بہت کم ہو چکی ہے لیکن جتنا بھی کماتی ہوں گھر کا نظام چلا لیتی ہوں۔سات ماہ قبل میری شادی ہوئی تھی شوہرکا ساتھ دینے پر مجھے فخر ہے اورمیں سب لڑکیوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے شوہروں کا ساتھ دیں اور ان کے ساتھ مل کر زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے جتنی بھی محنت کرنی پڑے کریں ۔ گاڑی خراب ہوجائے تو خرابی کا پتہ چل جاتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں عروج صابر نے کہا کہ گاڑی چلا چلا کر مجھے اندازہ ہو چکا ہے کہ اس میں خرابی کہاں اور کیا آئی ہے اگر کوئی خرابی آبھی جائے تو خود ورکشاپ پر لیکر جاتی ہوں دو گھنٹے لگیں یا چار میں بیٹھ کر خود کام کرواتی ہوں ۔گاڑی کا کام کروانے کیلئے مختلف ورکشاپس پر جانے کی بجائے ایک ہی ورکشاپ رکھی ہوئی ہے وہیں جاتی ہوں اگر کہیں راستے میں خراب ہوجائے تو اسی ورکشاپ پہ کا ل کرتی ہوں وہاں سے لڑکے آکر کام کر دیتے ہیں اور میری مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں عروج صابر نے کہا کہ ہر کسی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے لیکن میرے ساتھ کسی مرد سواری نے آج تک بدتمیزی نہیں کی بلکہ شائستگی سے پیش آتے ہیں ۔لاہور سے باہر کی رائیڈز بھی لیں ہیں جیسے شیخوپورہ ،مریدکے۔ شروع میں کبھی کبھی ڈر بھی جاتی تھی لیکن وقت اور لوگوں کے رویے نے حوصلہ دیااور اب میںخاصی مطمئن اور پر اعتماد ہوں۔مجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ میری سہیلیوں کی بچیاں مجھ سے کہتی ہیں کہ ہم آپ سے بہت متاثر ہیں اور ہم بھی آپ کی طرح ڈرائیونگ سیکھنا چاہتی ہیںمیرے پاس جو بھی بچی ڈرائیونگ سیکھنے آتی ہے کوشش کرتی ہوں کہ وقت نکال کر اسے ڈرائیونگ سکھائوں اور اسے حوصلہ دوں کہ ڈرائیونگ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔آج جیسا کہ پوری دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے میں خواتین سے کہنا چاہتی ہوں کہ اگر کچھ کرنے کا ٹھان لیں تو پھر کسی بھی پریشر کی وجہ سے پیچھے نہ ہٹیں لوگوں کے طعنے اورباتوں سے نہ گھبرائیں ،کسی بھی لمحے کمزور نہ پڑیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں ۔ یہ تو تھیں عروج صابر کی باتیں یقینا انہیں پڑھ کر اُن خواتین کو حوصلہ ملے گا جو اپنے خاندان کی کفالت کرنا چاہتی ہیں اور اپنے حالات بدلنا چاہتی ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ خواتین معاشرے کے نصف سے بھی زیادہ ہیں اور ان کا کردار کسی بھی معاشرے کی تعمیر و تخریب میں نمایاں طور پہ نظر آتا ہے ،، نپولین بونا پارٹ نے کیا خوب کہا تھا کہ ’’تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں مضبوط قوم دوں گا‘‘ نپولین کا یہ قول یقینا عورت کے لیے باعث فخر ہے کیوں کہ عورت قوموں کی تشکیل کا ابتدائی نقطہ آغاز ہے۔