آٹھ مارچ کا دن دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ، اس دن کی مناسبت سے بڑی بڑی تقریبات، ریلیاں، کانفرنسز منعقد ہوتی ہیں۔ جبکہ یہ ایک المیہ ہے کہ تحفظ حقوق نسواں کے علمبردار مغربی ممالک میں خواتین کو سب سے زیادہ جنسی زیادتی اور سماجی عزت و احترام سے محرومی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے بڑے بڑے غیر مسلم ممالک اپنی ننگی تہذیب سے تنگ آکر تیزی سے دین فطرت اسلام کی طرف لوٹ رہے ہیںاور سچے دل سے اسلام کو قبول کر رہے ہیں۔ بلاشبہ عورت کو دنیا بھر کی اقوام و مذاہب میں سب سے زیادہ حقوق اسلام نے دیے ہیں ۔ عورت خواہ ماں ہو ، بہن ہو، بیوی ہو ، بیٹی ہو ، خادمہ ہو یا معاشرے کی کوئی عورت اسلام میں اسے ہر لحاظ سے بلند مقام عطا کیا گیا ہے۔ اسلام جدید معاشرے کی عورت کو بھی وہی حقوق، عزت و وقار، عزت نفس دیتا ہے جو اس نے پسماندہ عورت کو عطا کئے ہیں۔ کیونکہ اسلام نہ صرف خواتین یا محض کوئی ایک طبقہ، بلکہ فلاح انسانیت کا عالمگیر مذہب ہے۔ خاندانی نظام، شرم و حیا، عورت کا احترام یہ وہ معاملات ہیں جن کا تعلق صرف خواتین سے نہیںبلکہ ان کا تعلق معاشرے کے ہر فرد سے ہے ۔ اسلامی تہذیب و ثقافت کے رنگ تو یہ ہیں کہ مرد اور عورت اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کریں۔مرد معاش کی فکر کرے جبکہ عورت (بیوی) شوہر کی خدمت، گھر کے مال ومتاع کی حفاظت، بچوں کی پرورش اور تربیت کو اپنی ذمہ داری سمجھے ۔لیکن دین سے دوری، حقوق و فرائض میں غفلت، اپنی تہذیب و ثقافت سے نفرت، فلموں، ڈراموں اور مغربی تہذیب کی اندھی تقلید نے ہمارے شہوانی جذبات اور ہوس کو اس حد تک ابھار رکھا ہے کہ اپنے جذبات کی تکمیل کے لیے ہر حد پھلانگ لی جاتی ہے ۔ پاکستان میں خواتین کی تعداد کل آبادی کا 52فیصد ہے اور یہاں بیشتر خواتین کے حالات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے گھریلو ماحول مجموعی طور پر تناؤ کا شکار ہے اور سماجی رشتے تیزی سے ٹوٹ پھوٹ رہے ہیں، طلاقوں اور خودکشیوں کے علاوہ عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ گھریلو حالات، غربت، افلاس، تنگدستی، محرومی اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ اور مجبور عورت جب روزگار کی تلاش میں باہر نکلتی ہے تو وہاں بھی اسے جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے، اگر ملازمت مل جائے تو سماج میں موجود مردوں کی حاکمیت کے باعث انہیں ہر وقت جنسی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین سے جو زیادتیاں ہوتی ہیں انہیں روکنے کے ساتھ ساتھ آزادی اور حقوق نسواں کے نام پر پاکستانی عورت کو اس استحصال اور ظلم سے محفوظ کیا جائے جس کا شکار مغرب کی عورت ہو چکی ہے اور جسے ترقی اور آزادی کے نام پر کھلونا بنا دیا گیا ہے ۔ اسلام ہمیں والدین کا احترام یا خواتین پر تشدد کا تدراک ہی نہیں ایک بہتر انسان بننے کی بھی ترغیب دتیا ہے۔ اسلام کے رہنما اصولوں پر چلتے ہوئے ہم برائی کے برے انجام اور اچھائی کے اچھے نتائج سے واقف ہوتے ہیں۔ دین سے دوری کے باعث آج ہمارے معاشرے میں کارو کاری، وٹہ سٹہ، ونی اور ستی جیسے جاہلانہ رواج عروج پر ہیں، جہاں عورت کو حقیر اور کم تر سمجھا جاتا ہے، راہ چلتے عورتوں پر آوازیں کسنا، مذاق اڑانااور غیراخلاقی الفاظ کا استعمال معمول سمجھا جاتا ہے، اس کے علاوہ تیزاب پھینک کر عورتوں کی شکلیں بگاڑ کر انہیں عمر بھر کیلئے بے سہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔اس دور میں بھی دور جہالت کے پیروکار موجود ہیں، کسی کی بہن کی اگر آبرو ریزی ہوجائے تو بھائی بجائے یہ کہ اپنی بہن کے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر مجرم کو قانون کے دائرے میں لائے، اپنی بہن ہی کو قتل کردیتا ہے، کہیں کوئی شخص کسی کی بہن کے ساتھ زیادیتی کرتا ہے تو جواب میں اس مجرم کی بہن کیساتھ اجتماعی زیادتی کرنے کا جاہلانہ پنچائتی فیصلہ دے دیا جاتا ہے۔ بلاشبہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر یہ ممکن ہے کہ ہم فلاح اور اچھے برے راستوں کی پہچان پاسکیں، اور اچھے کاموں کو اپنا کر اور برے کاموں کو چھوڑنے کی کوششیں کر کے ایک اعلیٰ انسان بن سکیں، اور بغض،کینا،تعصب ،چغلی،غیبت ، بد اعمالی ،زنا، لاقانونیت، ترک سود اور اس طرح کی بے شمار برائیوں سے نجات پاسکیں۔ اسلامی تعلیمات ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ اگر انسان اپنے اندر نیکی اور اچھائی کو فروغ دے گا تو دنیا کی زندگی میں بھی سکون غالب رہے گا اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی بڑی پر لطف اور رنگینیوں سے بھر پور زندگی اس کا مقدر ہوگی۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر محض دعوؤں، ریلیوں اور سیمیناروں سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی بلکہ معاشرے میں خواتین کے مقام کو کھلے دل، کھلے ذہن سے تسلیم کرنا ہوگا۔ اور خواتین کو بھی حیاء کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق و فرائض کو پہچاننا ہوگا، تاکہ ایک بہترین فلاحی معاشرے کا قیام عمل میں آسکے ۔