راول دیس کی ادبی روایت اب کے دبستان کاروپ دھار رہی ہے ٗ جہاں شعروادب کا مزاج چوکھا اور جدا ہے۔ اس کے ادبی معیارات اورامتیازات تشنگانِ علم و ادب پر پوری آب و تاب کے ساتھ واضح ہو رہے ہیں۔ دبستان راولپنڈی کی راہ ہموار کرنے میں نثار ترابی ایسے جید تخلیق کاروں کا کردار اپنے اپنے عہد میں تاباں و فروزاں رہا ہے جو اپنی مٹی سے ہر دم جڑے رہنے کی بہرطور سعی کرتے رہے ہیں۔ یہی لوگ اپنی مٹی کے مزاج سے آشنا ہوتے ہیں۔ ان کے مصارع ٗ ان کی اپنی دھرتی ٗ ثقافت اورروایات سے وابستگی کے شاید ہوتے ہیں۔ نثار ترابی دنیائے شعرو ادب پر پہلے پہل نثار احمد نثار کے نام سے ابھرے ٗ ازاں بعد مٹی سے محبت اور ابوترابؓ سے نسبت کے باوصف نثارترابی ہوگئے۔ ان کی ذات مٹی کے خصائص سے مزین ہے۔ عجزوانکسارہے ٗ حلاوت اور ایک عجب حلیمی اور شیرینی ہے۔ لہجہ نرم و ملائم ہے۔ ان کے مصارع مٹی کی مہک سے لبریز ہیں۔ ان کا کلام معطر ومطہر ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ انھوں نے باب العلم سے اکتساب کیاہے ٗ دنیا جہاں کے سبھی علوم کا گزر اسی چوکھٹ سے ہوتاہے۔ نثار ترابی نے اس چوکھٹ پرسررکھا اور دہلیز کو بوسہ دیا ہے۔ بوترابؓ کی نسبت سے ترابی ہونے کی منظوری بارگاہ رسالت سے ہوتی ہے۔ منظوری ہو جائے تو اطوار بدل کر رہ جاتے ہیں۔ تخلیق کے ضمن میں زندہ رہنے والے جملے اور مصرعے عطا ہوتے چلے جاتے ہیں۔برصغیر کے ممتاز شاعر اسد جعفری نے ڈاکٹر نثار ترابی کے باب میں کہا تھا:
؎یہ بات باعثِ اعزاز ہے تمہارے لیے
غلامِ پنج تنِ پاک ہو ، ترابی ہو
نثار ترابی ’’اردوغزل کے عصری رویے 1947ء تا1997ء ‘‘کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹر نثار ترابی ہوئے تھے۔ اس سے قبل انھوں نے شا ہ مراد خانپوری کی حیات اور فن پہ بھی مقالہ تحریر کیا تھا جو بعدازاں اکادمی ادبیات سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ ’’فکرفیض‘‘ بھی ان کا تحقیقی و تنقیدی معرکہ ہے۔ علاوہ ازیں ’’اپنی چھاں داسیک‘‘ ’’ہر صدا مسافر ہے‘‘ اور’’بارات گلابوں کی‘‘ ان کی شعری تصانیف ہیں جنھیں ادبی حلقوں نے بسروچشم قبول کیا اور خوب سراہا۔ ڈاکٹر نثار ترابی نے حمد ٗ نعت ٗ سلام ٗ منقبت ٗ غزل ٗ نظم ٗ ماہیا ٗ ہائیکو ٗ گیت و دیگر متعدد شعر ی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے لیکن ان کا میدان سخن غزل ہے جبکہ ماہیا کہنے کے باب میں انفرادیت کے حامل ہیں۔ اردو ٗ پنجابی ٗ پوٹھوہاری زبانوں میں انھوں نے تو اتر سے اشعار کہے ہیں۔ ان کا ایک کربلائی ماہیا ملاحظہ کیجئے:
اصغر کو نہیں بھولا
بیتی ہیں کئی صدیاں
ہلتاہے ابھی جھولا
نثارترابی روشنی کے پیامبر ہیں۔ ا ن کے ہاں ظاہر و باطن کے روشن ہو جانے کی خُو ہے۔ جب اس روشنی کی ایک کرن تک راہ رسان ہو جائے اور کرن محض ایک کرن میسر آجائے تو حال احوال بدل کر رہ جاتاہے۔ یہ ایک کرن پورے معاشرے کو روشن کر دیتی ہے۔ اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور روشنیوں کے سائے ہر سو پھیل جاتے ہیں۔ اس کے برعکس نثار ترابی کو اس نگر کا مکیں ہونا گوارا نہیں جہاں کوئی چراغ یادِیا نہ جل رہا ہو:
؎اساں ترابی اوتھے وس کے کیہ لینا
جس بستی وچ دیوا بلدا دسدا نئیں
درِنجف سے لَو لگ جائے تو سوائے غم حسینؓ کے دنیا جہاں کے سبھی غم و اندوہ اور آلام رفع ہو جاتے ہیں۔ یہ غم حرزِ جاں ٹھہرتاہے۔ اضطراب اور کسک قرار کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ غم دل سے قرار بن کر دھڑکتاہے ٗ حق کی صورت میں زباں سے ادا ہوتاہے ٗ اور محبت و مودّت کے روپ میں آنکھ سے آنسو بن کر ٹپکتاہے۔ ڈاکٹر نثار ترابی کے ہاں یہ غم پوری شان کے ساتھ موجود ہے ، اشعار دیکھئے:
یہ غم وہ غم ہے جو آنکھوں کے واسطے ہے شفا
یہ فیضِ نور ٗ ہے بخشش کاا ک خزینہ ہے
میں اس کے نورسے پاتا ہوں منزلوں کا نشاں
کہ ذکر آلِ نبیؐ ہی مرا سفینہ ہے
’’جھکتاہے اک زمانہ بصد عجز و احترام ، زینب! تری ردا کا ہے صدقہ لب فرات‘‘۔ یہ اسلوب ڈاکٹر نثار ترابی کے حصے میں ہی آیا جو انھیں معاصرین شعرا و ادبا سے ممتاز کرتاہے۔ اس پس منظر میں ان کا ایک ہائیکو دیکھئے:’’
آج پھر ساتویں محرم ہے
آج پھر کربلا کے پیاسوں پر
تشنگی کے سلام اترے ہیں‘‘
ڈاکٹر نثار ترابی کا جہان غزل بھی انفرادیت کا حامل ہے ۔ انھوں نے اس باب میں ایک نیا اور اچھوتا جہا ن آباد کیاہے۔ ان کے ہاں ایک عجب رومان اور کیفیتِ درد ہے۔ وہ پرندے کے شکارہونے پہ، پیڑ کے درد سے آشنا ہیں۔ تبھی یہ مصرعے قرطاس پہ نقش ہوئے تھے: ’’پیڑ سے پیڑ مل کرروتا ہے ، جب پرندہ شکارہوتاہے‘‘۔ ان کے ہاں خواب کو حقیقت میں ڈھلتے اور بخت جاگتے دیر نہیں لگتی۔ وہ ہوا کی اٹکھیلیوں سے بخوبی واقف ہیں مگر جس دیے نے جلنا ہوتاہے ٗ وہ جل کر رہتاہے۔ راول دیس کی شعری روایت میں نثار ترابی کے نام کا دیا بھی خوب جلا ہے۔ ان کی غزل کا رنگ دیکھئے:
ہمارے بخت کا لکھا بدل بھی سکتا ہے
وہ خواب ہے تو حقیقت میں ڈھل بھی سکتاہے
ہوا کی کوئی بھی سازش بجھا نہیں سکتی
چراغ جلنے پہ آئے تو جل بھی سکتا ہے
ڈاکڑنثار ترابی کو دل کے خانہ ء نہاں سے تہنیت پیش کی جاتی ہے کہ وہ ذکرِ اہلبیت اطہار میں مصروفِ عمل ہیں۔ یہ عطا دَر عطا اور توفیق دَر توفیق ہے۔ یہ محبت و مودّت کا نگر ہے۔ یہاں قبولیت اور منظوری پہلے ہوتی ہے.