احسان دانش کو میں خوش قسمت شاعر اس لیے مانتا ہوں کہ غربت اور بے وسائلی کی دبیز تہوں سے نکلنا اور خود کو معاشرے سے منوانا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔آپ 1914ء کو ضلع مظفرنگر کے نواحی قصبے کاندھلہ کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔آپ کے والد کا نام قاضی محمد دانش تھا اس نسبت سے آپ احسان دانش کہلائے ۔کہایہ جاتا ہے کہ آپ کے والد نہروں کی کھدائی کرنیوالے ٹھیکیداروں کے ساتھ بطور مزدور کام کرتے تھے۔احسان دانش کا بچپن انتہائی تنگ دستی میں گزرا ۔ابتدائی تعلیم کا آغاز قرآن پاک کی تعلیم سے ہی کیا۔1927ء میں پرائمری کا امتحان پاس کرکے غربت اور بے وسائلی کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ یہ بات بھی مشہور ہے کہ آپ کی شاعرانہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں آپ کے پرائمری کے استاد منشی عبدالرحیم جلال آبادی کا ہاتھ ہے۔ یہ بھی قدرت کا کمال ہے کم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود آپ موسیقی اور شاعری کا گہرا شعور رکھتے تھے ۔ایک دفتر میں انہیں کلرکی مل گئی تھی لیکن تنخواہ نہ ملنے کے سبب آپ نے اس ملازمت کو خیر باد کہہ کر ایک بیوپاری کی دوکان پرپانچ روپے ماہوار پرملازمت اختیار کرلی۔اس دوکان سے فارغ ہونے کے بعد جتنا وقت بچتا اپنے والد کے ساتھ نہروں کی کھدائی کرنے والے مزدورں میں شامل ہوجاتے ۔پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب آپ اپنے علاقے کے چند افراد کے ساتھ ملازمت کی تلاش میں لاہور چلے آئے اور معماروں کے ساتھ بطور مزدور کام کرنا شروع کردیا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی عمارتیں زیر تعمیر تھیں ۔آپ نے یہاں بھی مزدورکی حیثیت سے کام کیا بلکہ کچھ عرصہ چوکیداری کے فرائض بھی انجام دیئے۔اس کے بعد دھنی رام روڈ پر سراج الدین کی دوکان پر منشی کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ بعد ازاں آپ گورنر ہاؤس میں بطور نائب مالی بھرتی ہوگئے۔غرض کہ احسان دانش نے پیٹ بھرنے کے لیے ہر طرح کی مزدوری کی اور اپنی زندگی کے شب و روز انتہائی محنت و مشقت میں گزارے۔بالاخرانارکلی لاہورسے ملحقہ ایبک روڈ پر مکتبہ دانش کے نام سے کتابوں کی ایک دوکان کھول لی اور آخر ی سانس تک اسی سے وابستہ رہے ۔احسان دانش کی شاعری میں زندگی کی ضرورتوں کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ،ان کے نزدیک زندگی ایک بحربیکراں ہے جس کی موجیں حد نگاہ تک پھیلی ہوئی ہیں ۔جس میں سیلاب اور طوفان بھی ہیں جو کبھی نہیں تھمتے ۔کسی رکاوٹ سے اس کا اضطراب کم نہیں ہوتا۔بحیثیت انسان وہ اسلام کے دل وجان سے شیدائی تھے ۔ان کی شخصیت عمدہ اور پاکیزہ نظریات کا مرکب تھی ۔احسان دانش بہت شگفتہ ،بردبار، حلیم طبع اور خوددار انسان تھے۔ان کے علمی و ادبی سرمائے میں ان کی درج ذیل نثری اور شعری تصانیف ،ان کی اعلی فکر،مشاہدے کی گہرائی اور وسعت مطالعہ کی ترجمان تھی۔
آپ کی نثری تصانیف میں" جہاں دانش" شامل ہے ۔یہ کتاب ان کی سوانح عمری ہے ،ا س میں انہوں نے اپنی زندگی کے نشیب وفراز اور ادبی رویوں کا احاطہ کیا ہے۔لغات الاصلاح ۔یہ اردو کے ایسے پانچ ہزار غلط الفاظ کی تحقیق و تصحی کی ہے جو روزمرہ محاوارت اور تقریر وتحریر میں لکھے اور بولے جاتے ہیں ۔دستوراردو۔اس میں اردو نثر کے تصنیفی و تالیفی کارناموں اور روزمرہ کے اغلاط کی اصلاح و تحقیق کی،( جو عام طورپر استعمال کیے جاتے ہیں) ۔اس طرح آپ نے تحریر کو فصاحت کے میعار سے گرنے کی طرف توجہ دلا کر بہت بڑا علمی فریضہ انجام دیاہے۔خضرعروض ۔ علم عروض کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو حل کرنے کے لیے لکھی گئی ہے ۔اساس الامثال ۔یہ ضرب الامثال اور محاورات پر لکھی گئی تحقیقی کتاب ہے۔فرہنگ دانش۔ یہ اردو لغت ہے۔ توضیح غالب ۔اس کتاب میں غالب کی شاعری کی جامع وضاحت کی گئی ہے۔آئینہ تذکیروتانیث۔ مذکر مونث کے اصول وضع کیے گئے ہیں ۔
شعری تصانیف ۔احسان دانش کی اصل پہچان ان کی شاعری ہے، ان کی شعری کتابوں میں درج ذیل کتب منظرعام پرآکر خوب داد تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔نوائے کارگر،چراغاں ، آتش خاموش ،جادہ نو، نفیر فطرت ،شیرازہ،مقامات ،زخم و مرہم ،گورستان وغیرہ ۔غیر مطبوعہ کلام ۔قصرنگاراں ،فصیل سلاسل ،شمشیروسناں اول ،قفس رنگ اور کشت خون۔ان کی بیشتر نظمیں مزدور اور عام انسان کے حالات زندگی اور محسوسات کی عکاسی کرتی ہیں ۔عزم و ہمت کے یہ عظیم پیکر اور ممتاز شاعر کا انتقال 2مارچ 1982ء کو ہو ا اوروہ لاہور کے میانی قبرستان صاحب میں آسودہ خاک ہیں ۔
عزم وہمت کے پیکر اورمزدور شاعر احسان دانش
Mar 08, 2021